جنگ اور بچوں کی ہلاکتیں

   

وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں بیرونی دورہ پر ہیں۔ انہوں نے اپنا دورہ روس مکمل کرلیا ہے اور آسٹریا میںبھی دورہ کا اختتام ہوا چاہتا ہے ۔ اس دورہ کے موقع پر وزیراعظم نے جہاں باہمی دلچسپی اور مفاد کے حامل مسائل پر بات چیت کی ہے اور ہندوستان کے موقف سے دونوں ممالک کو واقف کروایا وہیں انہوںنے بین الاقوامی اہمیت کے حامل مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے ۔وزیر اعظم نے روس میں صدر پوٹین کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح کیا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دل عمل ہے ۔ بچوں کی اموات دیکھ کر دل دکھ سے بھر جاتا ہے ۔ اسی طرح آسٹریا میں اپنے دورہ کے موقع پر مودی نے آسٹریلیائی قیادت سے بات چیت میں واضح کیا کہ آج کا دور جنگ کا دور نہیں ہے اور تمام مسائل کا حل بات چیت کے ذریعہ ہی دریافت کیا جانا چاہئے ۔ یقینی طور پر آج کا دور یا کوئی بھی دور جنگ کا دور نہیں ہوسکتا کیونکہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے ۔ جنگ میں جو کوئی فتح یاب یا کامیاب ہوتا ہے وہ بھی نقصانات سے پاک نہیں رہتا ۔ جنگ ہر دو فریقین کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور مسائل کا سبب بنتی ہے ۔ جنگ میں انسانی جانیں بے دریغ ضائع ہوجاتی ہیں اور یہ ساری انسانیت کیلئے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ خاص طور پر اگر جنگ کے دوران معصوم اور بے گناہ و بے بس بچوں کی اموات ہوتی ہیں تو یہ اور بھی زیادہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے ۔ بچوں کا نہ جنگ سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ بین الاقوامی سیاست اور حالات سے انہیںکوئی سروکار ہوتا ہے ۔وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے بچپن میں ہی ہلاکت خیز ہتھیاروں کی زد میں آکر جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ انتہائی انسانیت سوز صورتحال ہوتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے واقعتا ایک تکلیف دہ مسئلہ ان قائدین کے ساتھ اٹھایا ہے ۔ یوکرین جنگ ہو یا پھر دنیا کا کوئی اور خطہ ہو جنگ ناپسندیدہ ہوتی ہے اور اس میں بچوں کی اموات تو بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ وزیر اعظم نے ایک اہم مسئلہ اٹھایا ہے تاہم انہیںیوکرین کے بچوں کی طرح غزہ میں جان گنوانے والے درجنوںیاسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بچوں کا مسئلہ بھی ان قائدین کے ساتھ تبادلہ خیال میں شامل کرنے کی ضرورت تھی ۔
ظالم اسرائیل غزہ میں مسلسل کئی ماہ سے بے گناہ معصوم اور نہتے فلسطینی عوام کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے ۔ ان میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اب تک ہزاروں بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ ہزاروں بچے ایسے ہیں جو زخموں سے چور ہوگئے ہیں اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بچوں کو دوا تک دستیاب نہیں ہے ۔ وہ ایک وقت پیٹ بھرنے کیلئے بھی تڑپ رہے ہیں اور بلک رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری اپنے ڈوغَلے پن اور دوہرے معیارات پر اٹل رہتے ہوئے ان بچوں کے حقوق پر لب کشائی سے گریز کر رہی ہے ۔ جہاں نریندر مودی نے بچوں کی اموات اور جنگ کے تعلق سے ملک کے موقف سے دو ممالک کے سربراہوں کو واقف کروایا ہے وہیں انہیں غزہ جنگ پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت تھی ۔ غزہ میں بچوں کے حقوق کی پامالی اور ان کی تکالیف و مصائب کے تعلق سے بھی عالمی قائدین کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی ۔ غزہ میں بچوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی ودرندگی والا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ وہاں بچے ایک وقت کی دوا اور ایک وقت کی غذا کیلئے تک تڑپ رہے ہیں۔ کئی کئی دن بھوک اور پیاس کا شکار ہوکر الگ سے موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیںاور دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ غاصب اور ظالم اسرائیل کی ہولناکیوں کے خلاف کوئی لب کشائی کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
جس طرح دنیا کے کسی بھی خطہ اور ملک کے بچوں کی فکر اور پرواہ کی جا رہی ہے اسی طرح غزہ کے معصوم اور بے گناہ بچوں کے تعلق سے بھی تشویش کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کو بزور طاقت اس کی ظالجانہ کارروائیوںسے روکنا کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں ہے لیکن کم از کم اس کو اپنی ظالمانہ کارروائیوں کا احساس دلایا جانا چاہئے ۔ اس کے خلاف عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کی جانی چاہئے ۔ غزہ میں غیر انسانی صورتحال کو ختم کرتے ہوئے وہاں بھی امن و امان اور سکون کو بحال کرنے لب کشائی کی جانی چاہئے ۔ انسانیت سے متعلق مسائل پر دو نظری کی گنجائش ہرگز نہیں ہونی چاہئے ۔