دہلی۔ پولیس تحویل میں 18سالہ مسلمان لڑکے کی موت‘ گھر والوں نے تشدد کا لگایا الزام

,

   

فبروری14کے روز دین دیال اپادھیائے اسپتال سے اسٹنٹ سب انسپکٹر(اے ایس ائی) برالے ہری نگر پولیس اسٹیشن نرنجن کمار کے فون کال جس میں انہوں نے ملک کی حالت خراب ہونے پر اسپتال میں داخل کرنے کا دعوی کیاتھا‘ اٹھارہ سالہ ذیشان ملک کی گھر والوں کو پہنچنے پر موت کی خبر ملی تھی۔

مکتوب میڈیا نے ملک کی بہن نرگس کے حوالے سے کہا کہ ”جب میرے بھائی کی نعش دیکھی تو میری والدین صدمہ سے دوچار ہوگئیں۔ مذکورہ پولیس نے ان گھر والوں کو اطلا ع دی تھی کہ اس نوجوان کے سینے میں درد ہورہا ہے اور اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے۔

پریت وہار کی سلم بستی میں رہنے والا ملک مرمت کا کام کرتا تھا جس کو ایک سگریٹ پیاکٹ کی مبینہ چوری کے الزام میں 20نومبر 2021کو تحویل میں لیاگیاتھا۔ اس کے بعد سے ملک تہاڑ جیل میں قید تھا‘ اس فیملی نے کہاکہ انہیں تہاڑ جیل منتقل کرنے کے پیپرس او رایف ائی آر کی کاپی فراہم نہیں کی گئی تھی۔

جبکہ پولیس کا دعوی ہے کہ ملک کی موت بیماری کی وجہہ سے ہوئی ہے اور فیملی والوں کا الزام ہے کہ پولیس تحویل میں یہ ہونے والا قتل ہے اور زخموں کے نشانات اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا ثبوت کے طور پر انہوں نے حوالہ دیاہے۔

مکتوب میڈیا نے ملک کے پڑوسی محمد افضال کا بھی حوالہ دیا جس کا کہنا ہے کہ غسل کے وقت انہوں نے ملک کے جسم پر ضربات دیکھے ہیں۔افضل نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ ”میں نے ذیشان کو غسل دیا۔

اس کے پھسلیوں پر زخم تھے اور گردن پر ضربات کے نشان تھے۔ اس کا کاندھا ٹوٹا ہوا تھا اور ایسا لگ رہاتھا کہ باربار اس کے کاندھے پر لاٹھی سے پیٹا گیاہے۔ اس کے دونوں پیر اور ایک کونے بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔

اس کے پیٹ پر ایک نشان تھا اس کے جسم میں سلاخ کو داغہ گیا تھا۔ اس کی موت بیماری سے نہیں ہوئی ہے۔ اس کا قتل کردیاگیا ہے“

https://twitter.com/arbabali_jmi/status/1494924886417960961?s=20&t=bqCu2HWwlqtKYdn5mPefGQ

ملک کے پسماندگان میں 45سالہ والد‘ 41سالہ والدہ دو بھائی او رتین بہنیں ہیں جو اس کی موت میں سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی ائی) تحقیقات کی مانگ کی ہے۔

ذیشان کے دو چھوٹے بھائی بہن جسمانی معذور ہیں۔ ملک کی کالونی کے 100سے زائد مکینون کے انصاف کی مانگ کے ساتھ 17فبروری کو ہونے والے احتجاج کے پیش نظر مذکورہ پولیس نے انہیں بھروسہ دلایا کہ وہ اس فیملی کے ساتھ”تعاون کریں‘’گے۔

ایک مکتوب (کسی لیٹر ہیڈ پر نہیں بلکہ صرف ایک پیپر پر تحریر کردہ)جس پر ایس ایچ او پریت وہار پولیس اسٹیشن ہیرا لال کی دستخط ہے میں لکھا نعش اور دستاویزات جو پوسٹ مارٹم سے متعلق ہیں گھر والوں کے حوالے کئے جائیں گے۔

تاہم مذکورہ فیملی کا الزام ہے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اب تک ان کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ذیشان کی میت کو 17فبروری کے روز بعد نماز مغرب کھوریجا قبرستان میں دفن کیاگیا ہے۔

پولیس تحویل میں ہونے والی اموات کے معاملوں میں اکثر پولیس عہدیدار بچ جاتے ہیں اور شاذ ونادر ہی متاثرہ خاندان کو معاوضہ دیاجاتا ہے۔ اترپردیش کے ضلع کاس گنج میں ایک 22سالہ محمد الطاف کی نومبر2021میں پولیس تحویل میں موت ہوگئی تھی۔

جبکہ پولیس کا دعوی تھا کہ یہ خودکشی ہے اور گھر والوں نے پولیس کی جانب سے زیادتیوں‘ اذیتوں اور تشدد کا الزام لگایاتھا۔