اتوار کے روز سے دہلی کے شمال مشرقی دہلی علاقے میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اب تک 22لوگوں کے موت کی اطلاعات ہیں جبکہ 250سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
دہلی پولیس کی ناک کے نیچے لوگ سلاخوں‘ لاٹھیوں سے مار پیٹ کررہے ہیں‘ گھروں کو نذر آتش کرنا اور ائی ڈی کارڈس کی جانچ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ توڑ پھوڑ مچارہے ہیں۔
پچھلے تین دنوں سے تشد کی لپیٹ میں رہنے والے شمال مشرقی دہلی کے پڑوس میں منگل کی صبح سے نصف رات تک لوگوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں لاٹھیاں‘ راڈس لئے گھوم رہاتھا اور مسلمانوں کے مکانات‘دوکانیں‘ گاڑیاں نذ ر آتش کرنے کاکام کررہا ہے۔
یہ تمام کاروائیاں پولیس کی ناک کے نیچے انجام دی جارہی تھیں جو تماشائی بن کران تمام واقعات کو دیکھ رہی تھی اور جہاں پر پولیس کی اشد ضرورت تھی وہا ں پر بھی موجود دور دور تک دیکھائی نہیں دے رہی تھی۔
چہارشنبہ کی صبح تک تشدد میں مرنے والی کی تعداد 17تک پہنچ گئی گھی۔ قومی سلامتی مشیر اجیت دوال نے منگل او رچہارشنبہ کے روز تشدد سے متاثرہ علاقوں کا پولیس کے اعلی حکام کے ساتھ دورہ کیا۔
انہیں اس موقع پر لوگوں کی برہمی او رناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا منگل کے روز دوال سلیم پور میں (نارتھ یسٹ) ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ کے دفتر پہنچے اس موقع پر ان کے ہمراہ دہلی پولیس کمشنر امولیا پٹنائیک بھی موجود تھے۔
ذرائع کے مطابق جانکاری ملی ہے انہوں نے مرنے والوں اور زخمیوں کے علاوہ جن لوگوں کو حراست میں لیاگیا ہے ان کی تفصیلات مانگی ہیں۔
نارتھ ایسٹ اسپتال گرو تیگ بہادر(جی ٹی بی) میں منگل کے روز نہ ہندو نہ مسلمان دونوں ہی مذاہب کے لوگ مردہ خانہ کے باہر نعشیں حاصل کرنے کے لئے کھڑے رہے۔
پیر کے روز تشدد میں مارے جانے والے اپنے بڑے بیٹے کی نعش حاصل کرنے کے لئے 69سالہ ہری سنگھ سولنکی کھڑے تھے۔ وہ اور ان کے گھر والے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو علاقے میں فساد بھڑکانے کا مورد الزام ٹہرایا۔
دیگر مرنے والوں اور زخمیو ں کے رشتہ داروں نے مشرا کو ان کی موت کا ذمہ داری ٹہرایا اور کئی نے سخت کاروائی کی مانگ بھی کی ہے۔ ایکسپریس کے ایک صحافی جو دہلی کے کاروال نگر رپورٹنگ کے لئے گئے تھے انہیں ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
مذکورہ صحافی بنے کہاکہ ”کچھ وقفہ کے لئے میں رکاایک او رہجوم میرے تعقب میں آگیا۔ ایک شخص جس کی عمر 50کے قریب تھی‘ میرا عینک اتری‘ اس کو کچل دیا اور مجھے دومرتبہ تھپڑ رسید کیاکیونکہ میں ”ہندو اکثریت والے علاقے میں رپورٹنگ کررہاتھا“۔
انہوں نے میرے شناختی کارڈس کی جانچ کی ”شیوا نارائنہ راج پروہت“اچھا ہندو ہو؟بچ گئے۔مطمئن نہیں ہوئے تو انہوں نے مجھ سے جئے شری رام کانعرہ لگایا۔ میں خاموش ہوگیا“۔
منگل کی نصف رات کے دوران ہائی کورٹ نے سنوائی کے دوران مصطفےٰ آباد کے الہند اسپتال سے زخمیو ں کو منتقل کرنے کے احکامات جاری کئے۔حال ہی میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی پارٹی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے حالات کو قابو کرلینے میں
مرکز پر بھروسہ جتایا۔اس کے رکن اسمبلی اتشی نے بھی ٹوئٹ کرکے کہاکہ ”پچھلے48گھنٹوں سے تشدد اور توڑ پھوڑ کاسلسلہ بدستور جاری ہے۔ پولیس‘ عام شہری‘ ہندو‘ مسلمان سب بڑی تعداد میں زخمی ہیں۔ کم سے کم دس لوگ مارے گئے ہیں۔
اگر پولیس لاء اینڈ آرڈر کوسنبھالنے کے موقف میں نہیں ہے۔ تو امیت شاہ کرفیو کیوں نافذ نہیں کردیتے؟فوج کو کیوں نہیں بلالیاجاتا ہے؟“۔
جے کے 24X7کے ایک 30سالہ صحافی کو گولی ماری گئی وہیں این ڈی ٹی وی کے صحافی کے ساتھ منگل کے روز نارتھ ایسٹ علاقے میں بدسلوکی کی گئی گئی۔
موج پور میں دوپہر کے دوران آکاش ناپا تشدد کی رپورٹنگ کررہے تھے اسی وقت میں ایک شخص نے ان کے دائیں کاندھے پر گولی ماری۔ انہیں اسپتال لے جایاگیاتھا۔
چہارشنبہ کے روز بھی این ایس اے اجیت دوال نے تشدد کا شکار مختلف علاقو ں کا دورہ کرتے ہوئے عوام سے ملاقات کی اور انہیں بھروسہ دلایا ہے کہ شہر میں بہت جلد حالات پرسکون ہوجائیں گے۔