کچلے جائوگے اگر تم بھیڑ میں ٹھہرے رہے
چلتے رہنا خود بخود ہی راستہ ہوجائے گا
کرناٹک میں انتخابی کامیابی کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں کچھ تبدیلی محسوس ہونے لگی ہے ۔ کانگریس پارٹی کے حوصلے بھی ایسا لگتا ہے کہ بلند ہوئے ہیں۔ پارٹی ملک کی ان ریاستوں پر توجہ کرنے لگی ہے جہاںآئندہ چند مہینوںمیںانتخابات ہونے والے ہیں۔ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ اور میزورم کے علاوہ تلنگانہ میںانتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ۔ کانگریس پارٹی یکے بعد دیگرے ان ریاستوں پر توجہ کرنے لگی ہے ۔ کانگریس کا منصوبہ ہے کہ ہر ریاست کے حالات پر گرفت بنائی جائے اور پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جائے ۔ کانگریس کیلئے راجستھان ایک ایسی ریاست بن رہی تھی جہاں داخلی اختلافات اور خلفشار کی وجہ سے پارٹی کے انتخابی امکانات متاثر ہورہے تھے ۔ ویسے بھی راجستھان کی روایت رہی ہے کہ وہاں ہر پانچ سال میں اقتدار بدلا جاتا ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اس بار کانگریس پارٹی اس روایت کو بدلنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس کیلئے اپنے طور پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کوششوں میںداخلی اختلافات اصل رکاوٹ بن رہے ہیں۔ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور سینئر لیڈر سچن پائلٹ کے مابین اختلافات اب ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے ہیں۔ دونوں ہی قائدین ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ جہاں اشوک گہلوٹ سچن پائلٹ کو غدار تک کہہ چکے ہیںوہیں سچن پائلٹ بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنا بھی کرچکے ہیں۔ یہ صورتحال کانگریس کیلئے اچھی نہیں ہے اور چونکہ پارٹی اقتدار کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے ایسے میں ان اختلافات کو ختم کرنا اور تمام ہی قائدین میںاتفاق پیدا کرنا ضروری ہے ۔ کانگریس نے قدرے تاخیر ہی سے صحیح اس مسئلہ پر کوششوںکاآغاز کیا ہے اور پارٹی صدرملکارجن کھرگے اورسابق صدر راہول گاندھی نے اشوک کہلوٹ اورسچن پائلٹ سے کل علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ دونوں ہی قائدین نے متحدہ مقابلہ سے اتفاق کیا ہے ۔
کانگریس نے کرناٹک میں سدا رامیا اور ڈی کے شیوکمار کے مابین اختلافات کو دور کرتے ہوئے متحدہ مقابلہ کو یقینی بنایا تھا ۔ اس کا نتیجہ کانگریس کے حق میںرہا ہے ۔ راجستھان میں بھی اسی طرح کی کوشش ہو رہی ہے ۔ حالانکہ پارٹی نے یہ دعوی تو ضرور کیا ہے کہ دونوں قائدین نے متحدہ مقابلہ سے اتفاق کیا ہے لیکن یہ واضح نہیںہوسکا ہے کہ کس فارمولے کے تحت دونوں کو ایک رائے کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ کو کیا کیا ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ کس کو انتخابات میں چہرے کے طور پر پیش کیا جائیگا ۔ کس کو انتخابی مہم کی کمان سونپی جائے گی ۔ یہ پارٹی کے اپنے داخلی امور ہیں اور ان کی میڈیا میں وضاحت کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن اس بات کو ضرور یقینی بنایا جانا چاہئے کہ دونوں قائدین عوام میں جب جائیں تو متحدہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جو اختلافات ہیں ان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پارٹی کی کامیابی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کی جائے ۔ جس وقت تک اتفاق نہیں ہوجاتا اس وقت تک انتخابی کامیابی کے امکانات موہوم ہی رہیں گے ۔ داخلی خلفشار بیرونی مسائل سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس بات کا احساس جہاں کانگریس قیادت کو کرنے کی ضرورت ہے وہیں اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ دونوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ احساس جتنا جلدی ہوجائے اتنا اچھا ہے ۔
جہاں تک دونوں قائدین میں ذمہ داریاں تقسیم کرنے کی بات ہے یا دیگر امور ہیں ان کو آپس میں دونوں قائدین کی موجودگی میں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ایک کے رول کو واضح کرنے اوراس کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بی جے پی یا دوسروں کو داخلی خلفشار کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے اور عوام میں بھی یہ اندیشے نہ رہیں کہ پارٹی قائدین ہی ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ کانگریس کے دعووں سے قطع نظر اتحاد کو قطعیت تو شائد نہیں دی جاسکی ہے تاہم اس کیلئے پہل ضرور ہوئی ہے اور محض پہل پر اکتفاء کرنے کی بجائے وقفہ وقفہ سے اس پر توجہ کے ساتھ اس کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ ہر پانچ سال میں اقتدار کی تبدیلی کی روایت کو واقعی بدلا جاسکے ۔