وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے آج مرکزی حکومت کے متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر عمل آوری عارضی طورپر روک دی ہے اور مرکز کو ہدایت دی ہے کہ وہ فی الحال سنٹرل وقف کونسل یا ریاستی وقف بورڈز میں کوئی تقررات عمل میں نہ لائے اور نہ ہی وقف جائیدادوں کی نوعیت یا ان کے کردار کو تبدیل کیا جائے ۔ یہ دو اہم عنصر اس متنازعہ قانون میں مرکزی حکومت نے شامل کئے ہیں جن پر عمل آوری کو روک دیا گیا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس قانون کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ ان میں انفرادی اورسیاسی جماعتوںو دیگر اداروں کی درخواستیں بھی شامل ہیں۔ سبھی کی عدالت میں سماعت ہوئی ۔ عدالت نے کل بھی اس مسئلہ پر سماعت کی تھی اور مرکزی حکومت سے چبھتے ہوئے سوال کئے تھے ۔ یہ پوچھا گیا تھا کہ جس طرح مسلمانوں کے وقف بورڈز میں ہندو ارکان کے تقرر کی گنجائش نکالی جا رہی ہے کیا اسی طرح ہندووں کے بورڈز میں مسلمانوں کو بھی جگہ دی جائے گی ؟۔ عدالت نے کل کسی طرح کے احکام جاری کرنے سے گریز کرتے ہوئے آج سماعت کی تھی اور آج عدالت نے عبوری یا عارضی حکم التواء جاری کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو سات دن میںجواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ عدالت کے یہ احکام نہ صرف مسلمانوں بلکہ صحیح الفکر عوام کیلئے راحت کا باعث ہیں۔ عدالت سے جس طرح انصاف کی امید وابستہ کرتے ہوئے مقدمات دائر کئے گئے تھے ان کی تکمیل کی سمت یہ ایک پیشرفت اور ایک اچھا قدم ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مرکزی حکومت اپنے جواب میں کیا کچھ پیش کرتی ہے اور عدالت کو مطمئن کرنے کیلئے کیا دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ کس طرح کے مواد کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ جس طرح پارلیمنٹ میں اکثریتی غلبہ کے ساتھ قانون منظؤر کروایا گیا تھا اورصدر جمہوریہ نے اسے منظوری بھی دیدی تھی اس طرح کی روش عدالت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو مطمئن کرنا ہوگا اور ہرسوال کا جواب دینا ہوگا ۔ پارلیمنٹ یا جے پی سی میں تو ارکان کے سوالات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی تھی ۔
عدالت سے ملی راحت حالانکہ عارضی ہے لیکن یہ خوش آئند اقدام ہے ۔ جو لوگ اس مقدمہ میںمرکزی حکومت کے خلاف فریق بنے ہیں انہیں اپنے موقف کو انتہائی موثر ڈھنگ سے پیش کرنے کی تیاری کرلینی چاہئے ۔ عدالت کے عارضی احکام پر انحصار یا اکتفاء نہیں کیا جاسکتا ۔ جس طرح عدالت میں حکومت سے چبھتے ہوئے سوال پوچھے جا رہے ہیں اسی طرح مخالف فریقین سے بھی سوال کئے جاسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیاریاں کرلینے کی ضرورت ہے ۔ عدالت کووقف جائیدادوں کے تحفظ اور ان کے استعمال اوردیگر تفصیل سے مطمئن کرنا ہوگا ۔ چونکہ عدالت میں کئی فریق اس مقدمہ میں ماخوذ ہوئے ہیں انہیں اپنے طور پر اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جو تجاویز زیر غور آئیں ان کا تفصیلی اور قانونی پہلووں سے جائزہ بھی لیا جانا چاہئے ۔ کسی بھی تجویز یا رائے کو سرسری انداز میں نہ مسترد کیا جانا چاہئے اور نہ ہی فوری طور پر قبول کیا جانا چاہئے ۔ جامع انداز میں اس کے منفی و مثبت دونوں ہی پہلووں کا جائزہ قبل از وقت لینا ضروری ہوگا۔ سکیولر نظریہ کے حامل اور درد مند دل رکھنے والے قانونی ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے ۔ عدالتی کشاکش سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں وقف کے تحفظ کے جذبہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور جامع اور مدلل موقف اختیار کرتے ہوئے ہی عدالتوںکو مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک مرکزی حکومت کی بات ہے تو وہ عدالت میں اپنے انداز میں پیروی کرنے کی کوشش کرے گی اور واجبی اورغیر واجبی وجوہات پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائیگا ۔ حالانکہ عدالتیں ان پر سوال ضرور کریں گی لیکن حکومت مخالف فریقین کو اس معاملے میں زیادہ چوکسی اختیار کرنے اور حکومت کے ہر دعوی کا جواب دینے کیلئے تیاری کرلینے کی ضرورت ہے ۔ یہ معاملہ صرف ٹامل مٹول یا اڈھاک رویہ سے حل ہونے والا نہیں ہے ۔ اس کیلئے موثر ‘ جامع اور طویل قانونی جدوجہد کرنی ہوگی اور عدالتوںسے انصاف حاصل کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہئے ۔ یہی وقت کا بنیادی تقاضہ ہے ۔