شہریت قانون کو چیلنج ‘ درخواستوں کی آج سپریم کورٹ میں سماعت

,

   

مسلم لیگ ‘ سی پی آئی ایم ‘ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش اور دوسروں کی عرضیاں۔ عارضی حکم التواء جاری کرنے عدالت سے استدعا

نئی دہلی 21 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) سپریم کورٹ میں کل چہارشنبہ کو شہریت ترمیمی قانون کی دستوری حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت ہوگی ۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس عبدالنظیر و جسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل ایک بنچ ان درخواستوں کی سماعت کریگی ۔ اس بنچ نے سینئر کانگریس لیڈر جئے رام رمیش ‘ انڈین یونین مسلم لیگ ‘ سی پی آئی ایم اور دوسروں کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی تھی ۔ اس قانون کے خلاف جملہ 132 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون تین پڑوسی ملکوں پاکستان ‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو ‘ سکھ ‘ عیسائی ‘ جین ‘ بودھ و پارسی مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوستانی شہریت دینے سے متعلق ہے اور اس میں مسلمانوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ میں دوسرے مراحل میں داخل کی گئی کچھ درخواستوں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ 10 جنوری سے نافذ العمل ہوئے اس پر حکم التواء جاری کیا جائے ۔ سپریم کورٹ نے 9 جنوری کو سی اے اے کو غیر دستوری قرار دینے کی استدعا والی درخواستوں کی سماعت سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں مشکل وقت چل رہا ہے اور کافی تشدد ہو رہا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے اپنی درخواست میں کہا کہ شہریت ترمیمی قانون سے مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت ملک میں آئے کچھ پناہ گزینوں کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے شہریت ترمیمی بل 2019 پر 12 ڈسمبر کو دستخط کردئے تھے جس سے یہ قانون کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ انڈین یونین مسلم لیگ کی استدعا ہے کہ اس قانون پر عبوری حکم التواء جاری کیا جائے درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکومت کا جو شہریت قانون ہے وہ دستور ہند کے بنیادی ڈھانچہ کے مغائر ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھنا ہے کیونکہ اس قانون سے صرف ہندووں ‘ سکھوں ‘ بدھسٹوں ‘ جینس ‘ پارسیوں اور عیسائیوں ہی کا فائدہ ہوگا ۔ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش کی جانب سے داخل کردہ درخواست میںکہا گیا ہے کہ یہ قانون دستور میں سب کو مساوی سمجھنے اور مساوی سلوک کرنے کا جو بنیادی حق ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ جئے رام رمیش نے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے کسی کو شہریت دی جاسکتی ہے یا شہریت سے محروم رکھا جاسکتا ہے ؟ کیونکہ یہ جو گنجائش ہے وہ پہلے سے موجود قانون میں ترمیم کرتے ہوئے فراہم کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ کئی فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں داخل کرتے ہوئے اس قانون کی دستوری حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ آر جے ڈی لیڈر منوج جھا‘ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا ‘ جمیعۃ العلما ہند ‘ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین ‘ پیس پارٹی ‘ سی پی آئی ‘ مجلس ‘ رہائی منچ اور دوسروں نے اپنی اپنی جانب سے یہ درخواستیں داخل کی ہیں۔