ڈاکٹرعاصم ریشماں
کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپ ﷺسے تبرک حاصل کرتے تھے، مثلاً آپ ﷺ کے جسمِ اطہر کو تبرکاً مس کرتے۔ آپ ﷺ کے وضوسے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے۔ جس پانی سے آپ ﷺ اپنا دستِ مبارک دھوتے اسے اپنے چہروں اور بدن کے حصوں پر مل کر تبرک حاصل کرتے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، آپ ﷺ کے پسینہ مبارک، لعابِ دہن، موئے مبارک، انگوٹھی مبارک، بستر مبارک، چارپائی مبارک اور چٹائی مبارک سے برکت حاصل کرتے تھے۔ الغرض وہ ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور ﷺ کے جسمِ اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی بلکہ جن مبارک مکانوں اور رہائش گاہوں میں حضور نبی اکرم ﷺنے سکونت اختیار فرمائی، جن مقدس جگہوں پر آپ ﷺنے نمازیں ادا فرمائیں، جن بخت رسا راہوں سے آپ ﷺ گزرے، ان کے گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے تبرک حاصل کیا۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است
حضور نبی اکرم ﷺ کا ادب و احترام نہ صرف کمال ایمان ہے بلکہ اصل ایمان ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرتِ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ہر ایک ادا اور عمل ادبِ مصطفی ﷺمیں رچا بسا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی افضلیت کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے کوئی قلب میرے صحابہ کے قلوب سے زیادہ پاکیزہ نہیں دیکھا۔ اس لئے ان کو میری صحابیت کے لئے پسند فرمایا۔ جو کچھ وہ اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے اور جو وہ برا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے‘‘۔
صحابہ کرام کے دلوں میں موجود اسی پاکیزگی و تقویٰ ہی کا اثر تھا کہ وہ آپ کے آداب کو ہر جگہ اور ہر وقت بجالاتے۔ اگر کسی بشری تقاضے یا سادگی سے کوئی ایسی حرکت ہوجاتی جس میں ہلکا سا بے ادبی کا شائبہ بھی ہوتا تو فوراً کلام الہٰی کے ذریعے تنبیہ اور زجرو توبیخ نازل ہوتی جس سے سب خبردار اور ہوشیار ہوجاتے۔ صحابہ کرام کے قلوب میں آپ ﷺکی تعظیم و تکریم اس قدر راسخ تھی کہ وہ آقا ﷺ کے روبرو بات نہ کرسکتے تھے اور اگر آپ ﷺ سے کچھ دریافت کرنا مقصود ہوتا تو کئی دنوں تک خاموش رہتے اور موقع کے منتظر رہتے۔ یا کسی بدو،اعرابی، دیہاتی کے آنے کا انتظار کرتے کہ وہ آکر رسول اللہ ﷺ سے کچھ پوچھے اور ہم اس سے استفادہ کریں کیونکہ وہ حضور ﷺکی تعظیم و اکرام کے باعث خود دریافت نہ کرسکتے تھے۔ آپ ﷺ کی مجلس میں آکر بیٹھتے تو بالکل بے حس و حرکت سرنیچے کیے بیٹھے رہتے۔ نگاہ اُٹھا کر بھی حضور ﷺ کی طرف دیکھنا بے ادبی خیال کرتے تھے۔ادب ایک کیفیت قلبی کا نام ہے جس کے زیرِ اثر انسان سے مختلف افعال ظہور میں آتے ہیں۔ صحابہ کرام، حضور نبی اکرم ﷺ کا ادب کس طرح بجا لاتے، اس کو کماحقہ احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔
اسیرانِ جمالِ مصطفی آپ ﷺ کے دیدار سے زندگی پاتے تھے اور انہیں محبوب ﷺ کی ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کے محبوب ﷺ کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام محبوب ﷺ کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ربِ کائنات نے اپنے محبوب ﷺ کو سیرت و صورت میں ایسا یکتا و تنہا اور بے مثال بنایا تھا کہ کائناتِ رنگ و بو میں کوئی دوسرا اس کا ہم سر نہ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا ﷺسے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ ﷺکو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک نہ اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔حضور نبی اکرم ﷺ اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ ؐکے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپؐ کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جاں نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔ حضرات صحابہ کرام نے محبوب خدا ﷺ کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن کر یہی کہنا پڑتا ہے جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کریگا۔اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزمان ﷺ بے مثل و بے مثال ہیں ۔