قانونی سوالات پر فیصلے کرتے وقت اسلامی اسکالرس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔کیرالا ہائی کورٹ

,

   

عدالت نے فقہ اورشرعیت پر زوردیتے ہوئے کہاکہ اس نکتے کو سامنے لانے کے لئے کہ مسلم پرسنل لاء کا فیصلہ کرنے کے لئے عدالت کے ذریعہ اسکالرس پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا


تھرویننتھا پورم۔کیرالا ہائی کورٹ نے منگل کے روز وہ قانونی سوالا ت کا فیصلہ کرتے وقت اسلامی اسکالرس کی رائے کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں کیونکہ ان کے پاس کوئی قانونی تربیت نہیں ہے۔

جسٹس محمدمشاق اور سی ایس ڈائیس پر مشتمل ایک ڈویثرن بنچ نے کہاکہ جب قانون کی بات ہوتی ہے تو عدالتیں تربیت یافتہ قانونی ذہنوں سے چلائی جاتی ہیں اور صرف عقائد سے طریقوں سے متعلق معلومات اسکالرس کی رائے پرغور کیاجائے گا۔

انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ عدالتیں تربیت یافتہ قانونی ذہنوں سے چلتی ہیں۔ مذکورہ عدالت اسلامی اسکالرس کی رائے پر خود سپردگی اختیار نہیں کریگی‘ جس کی قانونی نکایت پر کوئی تربیت نہیں ہے۔

یقینا جہاں تک عقائد اورعمل سے متعلق معاملات ہیں‘ ان کی رائے اہم ہے اور عدالت کو ان کے خیالات کا احترام کرناچاہئے۔

عدالت نے فقہ اورشرعیت پر زوردیتے ہوئے کہاکہ اس نکتے کو سامنے لانے کے لئے کہ مسلم پرسنل لاء کا فیصلہ کرنے کے لئے عدالت کے ذریعہ اسکالرس پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔

عدالت اس درخواست پرغور کررہی تھی جس میں اس کے سابق فیصلوں پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی تھی جس میں اس نے فیصلہ کیاتھا کہ مسلمان بیوی کے کہنے پر نکاح ختم کرنے کاحق ایک مکمل حق ہے جو اسے قرآن پاک سے عطا ہوا کیاہے وہ قبولیت اور اس کے شوہر کی مرضی کے تابع نہیں ہے۔

تمام فریقین کوسننے کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی کوئی وجہہ نہیں پائی اور درخواست کو مستر د کردیا۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے او ریہ کئی سالوں سے چل رہا ہے کیونکہ اسلامی علوم کے اسکالرز‘ جن کے پاس قانونی علوم کی کوئی تربیت نہیں ہے‘ انہو ں نے عقیدہ اور عمل کے امتزاج پر اسلام میں قانون کے نکتے کی وضاحت کرناشروع کردی ہے۔