قانون کی طاقت کا بیجا استعمال

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہمارے عزت مآب وزیر قانون و انصاف مسٹر کرن رجیجو ہر موقع کو اس بات پر زور دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کی حکومت نے کبھی بھی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کبھی مداخلت کرے گی۔ چنانچہ بحیثیت ایک شہری اور ایک پریکٹس کرنے والے وکیل کے طور پر میں ان کی باتوں ان کے دعوؤں پر یقین کرنا چاہوں گا۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ حال ہی میں انہوں نے منعقدہ انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں حکومت کے موقف کو دہرایا۔ آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ انہوں نے کیا دہرایا۔ انہوں نے یہی کہا کہ ملک میں عدلیہ آزاد ہے اور آزاد عدلیہ میں حکومت نے کبھی بھی مداخلت نہیں کی۔ اپنے بیان کے وسط میں انہوں نے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بجلی گرائی اور انہوں نے جو کچھ کہہ کر بجلی گرائی ان کے اس بیان کے الفاظ میں نقل کروں گا۔ انہوں نے کہا ’’میرا یہ احساس ہیکہ یہ میرے لئے ساری قوم کے لئے انتہائی اہم موضوع ہے۔ ہندوستانی عدلیہ کو کمزور کرنے کی مسلسل اور جان بوجھ کر کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لئے وہ (اپوزیشن) ہر دن یہی کہتے رہتے ہیں کہ حکومت ہندوستانی عدلیہ پر قابو پانے اس پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایک طرح سے یہ حکومت کے ناپاک عزائم ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک ہندوستان کی دشمن طاقتیں اسی قسم کی زبان استعمال کرتی ہیں اور ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر اس قسم کا ماحولیاتی نظام Ecosystem کام کررہا ہے لیکن یاد رکھئے ہم اس ٹکڑے ٹکڑے گیانگ (ٹولی) کو ہندوستان کی سالمیت و اقتدار اعلیٰ کو تباہ و برباد کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ ’’حالیہ عرصہ کے دوران دارالحکومت دہلی میں ایک سمینار کا انعقاد عمل میں آیا جس میں سپریم کورٹ کے چند ریٹائرڈ ججس صاحبین، کچھ سینئر وکلا نے بھی شرکت کی۔ سمینار کا عنوان ’’ججس کے تقررات میں خود احتسابی‘‘ رکھا گیا تھا لیکن سارا دن ججس کے تقررات میں خود احتسابی کی بجائے اس بات پر باتیں کی گئیں کہ حکومت کس طرح عدلیہ کو اپنے قابو میں لے رہی ہے۔ ایسے چند ریٹائرڈ ججس، ہوسکتا ہے کہ ان کی تعداد تین یا چار ہو، ایسے چند جہدکار جو مخالف ہندوستان ٹولی کا حصہ ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عدلیہ ایک اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کرے۔ ’’ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور قانون کے مطابق کارروائی کی بھی جارہی ہے لیکن اگر میں یہ کہتا ہوں کہ میں کارروائی کروں گا … مرکزی ایجنسیاں قانون کی مختلف دفعات کے تحت کارروائی کریں گی۔ اقدامات کریں گی، کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔ فکر مت کیجئے کسی کو فرار کی اجازت نہیں ہوگی جو لوگ ملک اور اس کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی انہیں اس کا قمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
یہ ایک غیر مبہم بات ہے یعنی ایک واضح بیان ہے جس میں ریاست (حکومت) نے اپنے وزیر قانون کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ریاست (حکومت) یہ کہہ رہی ہے بلکہ انتباہ دے رہی ہیکہ اگر حکومت اقدامات و کرروائیاں کرنا شروع کردے تو پھر ٹکڑے ٹکڑے گیانگ ہو یا پھر کوئی بھی فرد جو ہند مخالف یا ہند دشمن ٹولی کا حصہ ہے اپے حتمی انجام کو پہنچ جائیں گے۔ ایک طرح سے وزیر قانون و انصاف نے انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں کہہ دیا کہ حکومت کے خلاف بولنے اور آزاد عدلیہ کے حق میں آواز اٹھانے والے اداروں و افراد کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ حکومت نے یہ بھی انتباہ دیا ہیکہ کوئی جہدکار اور رضاکار تنظیمیں اپوزیشن کی زبان میں بات نہ کریں اور اگر وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ بہرحال مرکزی وزیر قانون و انصاف جن ایجنسیوں کی بات کررہے ہیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’ایجنسیاں‘‘ کون ہیں؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ایجنسیاں کیا کارروائی کریں گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس شخص کے خلاف کارروائی ہوگی اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قانونی کارروائی دراصل ’’سزا‘‘ ہے۔اگر دیکھا جائے تو عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون ایک اہم عضو ہے اور عدلیہ میں عدالت عظمیٰ یا سپریم کورٹ کو سب سے بلند و بالا مقام حاصل ہے جہاں تک سپریم کورٹ آف انڈیا کا سوال ہے کبھی اسے دنیا کی سب سے طاقتور عدالت تصور کیا جاتا تھا۔ 21 مارچ 2023 کو ججس کی سہ رکنی بنچ نے ستیندر کمار انٹیل بمقابلہ سنٹرل بیورو آف انوسٹگیشن (سی پی آئی) مقدمہ میں فیصلہ صادر کیا۔ اس عدالت نے جولائی 2022 میں ضمانت کے مسئلہ پر اسی مقدمہ میں سابقہ فیصلہ دیا اس میں عدالت نے کیا الفاظ ادا کئے تھے ان الفاظ کو میں ذیل میں پیش کررہا ہوں۔
’’وکلانے ہمارے روبرو ستیندر کمار انٹیل بمقابلہ سی بی آئی مقدمہ فیصلہ کی خلاف ورزی میں ’’منظور کئے گئے احکامات صرف ایک نمونہ کے طور پر پیش کئے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ زمینی سطح پر تقریباً دس ماہ گذر جانے کے باوجود کسی طرح بہت سارے نقائص موجود ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کا شمار نہیں کیا جاسکتا اور ہمارے خیال میں یہ ہائی کورٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی زیر نگرانی تحت کی عدالت ملک کے قانون کی پاسداری کرے، کچھ مجسٹریٹس کی جانب سے اس عدالتی کام کو واپس لینے کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے اور ان مجسٹریٹس کو کچھ وقت کے لئے اپنی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے کے لئے جوڈیشیل اکیڈیمیوں میں بھیجا جانا چاہئے۔ ایک اور پہلو جس کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ یہ ہیکہ نہ صرف عدالتوں بلکہ سرکاری وکلاء کا بھی یہ فرض ہیکہ وہ عدالتی عہدیدار کی حیثیت سے عدالت کے روبرو صحیح قانونی موقف پیش کریں۔ جس طرح دستور ہند کی دفعہ (a) (1) 19 کے تحت آزادیٔ اظہار خیال، آزادی تقریر کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ یہ دونوں جمہوریت کی بنیادوں اور ناقابل تبدیلی خصوصیات ہیں۔ بہرحال عدالت عظمیٰ کی جانب سے ظاہر کی گئی ناراضگی تفتشی ایجنسیوں اور ایک مرعوب تحت کی عدلیہ (قابل لحاظ و قابل ذکر استثنیٰ کے ساتھ) کے درمیان پھنسنے والے قانون کی حالت زار کو واضح کرتی ہے۔
اب آتے ہیں گجرات کی ایک تحت کی عدالت کے فیصلہ کی جانب 23 مارچ 2023 کو ایک مجسٹریٹ کورٹ نے کانگریس قائد راہول گاندھی کو ایک انتخابی مہم ؍ انٹرویو کے دوران بعض الفاظ کی ادائیگی پر نعزیرات ہند کی دفعات 499 اور 500 کے تحت ہتک عزت کا مرتکب پایا اور انہیں 2 سال قید کی سزا سنائی۔ راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کے ایک لیڈر نے شکایت کی تھی اور مقدمہ دائر کیا تھا۔ راہول گاندھی کی نمائندگی کرنے والے وکیلوں نے فاضل مجسٹریٹ کے فیصلہ میں خامیاں پائیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس مقدمہ میں دو سال سزائے قید سخت سزا ہے اگر دیکھا جائے تو مضبوط سیاسی گفتگو جمہوریت کی خوبی ہے۔ اگر اسی فیصلہ کا گہرائی اور گیرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ضرور سامنے آئے گی کہ دراصل اپوزیشن کے ایک سرکردہ لیڈر کی آواز دبانے کے لئے قانون کا غلط استعمال کیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں قانون کی طاقت کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ ایسا استعمال جس سے ان اپوزیشن قائدین کی آوازیں دبائی جارہی ہیں جو حکومت کی غلط پالیسیوں پروگرامس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ راہول گاندھی نے سوالات پر سوالات اٹھاتے ہوئے حکومت کو پریشان کررکھا ہے۔