مولاناحافظ سید مدثر حسینی
تاریخ عالم شاہد ہے کہ دنیا میں اسلام تلوار ،ہتھیار اور جنگ وجدال سے نہیں بلکہ عمل،سیرت اور کردار سے پھلا پھولا اور پھیلا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء کرام و صحابہ عظام کے بعد دین حق کی روشنی کو دنیا میں پھیلانے کا کام اولیاء کرام نے کیا ہے۔ وارثین انبیاء کرام میں حیدرآباد دکن کی مبارک ہستی جن کے علمی وروحانی فیضان سے سارا عالم فیض یاب ہوا ہے اور ہورہا ہے،اس ذات گرامی کا اسم گرامی ‘ قطب الاقطاب ‘ پیر و دستگیر حضرت سید شاہ معین الدین حسینی المعروف بہ شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ کی شخصیت ہے۔
حضرت شاہ خاموش ؒ کو علم وفضل ،تقوی وورع کی ساری فضیلتیںحاصل تھیں،آپ ؒ خدا داد ذہانت وعلمی لیاقت کے مالک اور فراست ایمانی وبصیرت روحانی سے سرفراز تھے،اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت شاہ خاموش ؒ کوظاہر وباطن کا بحر ذخار اور بے شمار کمالات کا جامع بنایا۔
حضرت شاہ خاموش ؒکا سلسلہ نسب والد ماجد کی جانب سے انچالیس ۳۹واسطوں سے امام المشار ق والمغارب امیر المؤمنین مولائے کائنات حضرت سیدنا علی ؓبن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔ حضرت شاہ خاموش ؒکی ولادت باسعادت ۱۲۰۴ھـــــــــــــ شہر محمدآباد بمقام بیدر کرناٹک ہوئی،آپؒ کے والد بزرگوار سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے پیر اور صاحب طریق مشائخ خانوادے سے تعلق رکھتے تھے آپؒ کا اسم گرامی حضرت خواجہ سید شاہ میراں مخدوم حسینی ؒ المعروف پیر حسینی پیراں ؒ ہے ۔ ایک روز جب حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ اپنے مکان سے باہر محلہ کے ہمعمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے بزرگ حضرت بندہ علی شاہ صاحب قبلہؒ مجذوب کا اُدھر سے گزر ہوا انہوں نے حضرت کو کھیلتا ہوا دیکھ کر فرمایا ’’ تم شیر ہو کر گیدڑوں میں کھیلتے ہو‘‘ اور کچھ مٹھائی حضرت کو کھلا دی بس وہ مٹھائی کھانا تھا کہ حضرت شاہ خاموش ؒ پر شوق الی اللہ کا غلبہ شروع ہوا اور حق جوئی کی طرف توجہ غالب ہوئی ذکروشغل پسند خاطر مبارک ہوا ۔(دیوان حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ )
حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ کے خلیفہ مولوی سید امانت علی شاہ صاحب ؒ امروہی فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم دونوں حضور حافظ صاحب قبلہ ؒ کے حجرہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ اہل سلسلہ بکثرت موجود ہیں کہ حضور حافظ صاحب قبلہؒ نے صاحبزادہ سید معین الدین حسینی ؒ کے سر پر دستار خلافت باندھی اور دکن کی قطبیت وولایت سرفراز فرماکر تاکید فرمائی کہ ہماری حیات تک امروہہ میں رہ کر ہر دوسرے تیسرے ماہ آیا کریںہمارے بعد دکن میں مقیم رہنا اور فرمایا کہ حضور غریب نوازؒ نے تمہیں قطبیت دکن عطا فرمائی ہے اور حضور حافظ صاحب قبلہ ؒ نے حضرت شاہ خاموشؒ کے سینہ کو علم ظاہر وباطن سے بھر دیا اور حقائق منکشف فرمائے۔(دیوان شاہ خاموشؒ)
حضرت شاہ خاموش صاحبؒ حیدرآباد دکن کی ایک ایسی بزرگ شخصیت ہیں جنہوں نے آصفجاہی خاندان کے دو حکمرانوں نواب ناصر الدولہ اور نواب افضل الدولہ کے دور میں دین وایمان کے استحکام اور خانقاہی نظام کے فروغ میں اہم حصہ اداکیا ،حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ جب مانک پور پنجاب سے حیدرآباد دکن تشریف لائے ایک پیر کامل اور رشد وہدایت کا سرچشمہ بنے،شاہان آصفیہ نے حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ کی خدمت کرنی چاہی ‘نذرانے پیش کئے جاگیریں دینی چاہیں ‘آپ ؒ نے زرودولت اور تحفے وتحائف کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی مکہ مسجد کے عقب میں ایک کچے مکان کو ترجیح دی جو آج خانقاہ مکہ مسجد کے نام سے موسوم ہے،جہاںتقریبا ایک صدی سے رشد وہدایت کا پیام جاری وساری ہے،حیدرآباد دکن کو جہاں کئی اعزازات حاصل ہیں ‘قطب شاہی اور آصفجاہی خاندانوں نے تقریبا چار صدیوں تک اسلام اور مسلم رواداری وتہذیب کے انمٹ نقوش پیدا کئے وہیں ان بزگان دین کی خدمات کو بھی مساوی اہمیت حاصل ہے ، ،حیدرآباد دکن میں جن اولیاء کرام نے روحانی حکمرانی کے نقوش چھوڑے ہیں ان میں حضرات یوسفین شریفین ؒاور حضرت راجو قتال حسینی ؒ قطب شاہی دور میں روحانیت کے چراغ جلائے ہیں ،وہیں آصفجاہی دور میں حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ نے بزرگان دین کے طریق کو آگے بڑھایا۔ خانقاہ مکہ مسجد میں حضرت شاہ خاموشؒ کے محافل ذکر ومجالس قوالی ہواکرتیں خانقاہ میں مقیم فقراء کی تعداد تین سو سے زائد ہوا کرتی جب حلقہ ذکر منعقد ہوتا تو پورے شہر میں دھوم مچی رہتی ہے۔ نواب ناصر الدولہ بہادر کی زندگی ہی میں ولیعہد نواب افضل الدولہ بہادر کی خانقاہ میں آپؒکی کثرت سے آمد ورفت تھی اور دونوں نواب حضرت شاہ خاموشؒ سے بڑی شدت سے عقیدت رکھتے تھے ،ان بادشاہوں کے تمام اہل محلات اور والیان پائیگاہ اور ان کے محلات بھی حضرت شاہ خاموش ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے مرید ہو چکے تھے۔ آپؒ کے حکم پر مختلف شہروں میں مساجد تعمیر کروائی گئی جن کی تعداد ۹ ہیں ۔ حضرت شاہ خاموش قبلہ ؒ پنچ وقتہ نمازتاریخی مکہ مسجد میں ادا فرمایا کرتے۔ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ ایک ایسی بسا بزرگ اور قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے دین وایمان کے استحکام اور خانقا ہی نظام کے فروغ میںحیدرآباد دکن میں اہم حصہ ادا کیا۔
یکم ذی القعدہ بروز جمعہ حضرت ؒپر غشی طاری ہوئی اور تمام حاضرین نے سمجھا کہ حضرت قبلہ ؒ کا وصال ہو گیا ،چیخ وپکار شروع ہو گئی اطباء اور حکماء نے بھی نبض دیکھ کر یقین کر لیا کہ دفات ہو گئی ،لوگوں کی آہ وفغاں سے حضر ت شاہ خاموش ؒ متوجہ ہو ئے اور دریافت فرمایا کہ آج کیا دن ہے لوگوںنے عرض کیا کہ جمعہ کا دن ہے ،حضرت شاہ خاموش قبلہؒ نے زبان مبار ک سے ارشاد فرمایا پیر کے دن پر رکھئے،اس کے چار روز بعد پیر کے دن ۴ ذ ی القعدہ ۱۲۸۸ ھـ بمطابق۱۵ جنوری۱۸۷۲ ء جبکہ حضرت قبلہ ؒ نے خانقاہ میں با جماعت نمازظہر کی ۲ رکعتیں ادا فرمائی (حافظ نور محمد صاحب ؒ امامت کر رہے تھے) تھیں کہ حالت نماز میںحضرت سیدشاہ معین الدین حسینی الملقب شاہ خاموش ؒ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔امیر کبیر میان شہوار بیگ تعلقدار نے حضرت قبلہ ؒ کے جسد کو غسل دیا اور درویش بادل ریش پانی دیتے تھے آ پؒ کا کفن مطہر گیرو داررنگ کا پہنایا ‘ مکہ مسجد میں خاص و عام بے حساب لوگوں نے حضرت شاہ خاموش ؒکے نمازجنازہ میں شرکت کی ۔ مولوی حیدر علیؒ کے صاحبزادہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مؤرخین وسوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ مکہ مسجد کے اطراف جو بنگلے واقع تھے‘چارمینار تک ان کی چھتوں پر ہزارہا امراء عہدیدار موجود تھے ،ہاتھیوں پر سے نیچے پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ملی تو ہاتھیوں پر ہی سوار ہوکر حضرت قبلہ ؒکی نماز جنازہ ادا کی ۔ (تاریخ محبوب ذی المنن؍دیوان حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ )
آج بھی آپؒ کے مزار مبارک پر رونق افروز روحانی منظر اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے لوگ بارگاہ میں آتے ہیںاور اپنی مرادیں پاتے ہیں،اسی فیض کو حضرت مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری ،سجادہ نشین و امیر جامعہ نظامیہ جاری وساری رکھے ہوئے ہیں ۔