قطب عصر حضرت خواجہ مرزا محمد بیگ قبلہ ؒ

   

مولانا محمد کلیم اللہ چشتی مرزائی
حضرت مرزا محمد بیگ قبلہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایسی ہستی ہیں جن کے ہاں عمل و ایقان اور علم و ایمان کے ساتھ ساتھ نورِ عرفان کی دولتِ بے بہا موجود ہے ۔ ایک ایسی ہستی جن کی زبان سے نکلنے والے موتی نے جہاں ہزاروں بندگانِ خدا کو شاہراہِ ہدایت پر کھڑا کیا تھا ، وہیں اُن کی عملی زندگی کے قابل دید پہلو نے سینکڑوں لوگوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا ۔ آپ کی ذات شروع سے ہی نیک طبیعت تھی ۔ آپ کے والد گرامی حضرت مرزا محمد قاسم بیگ رحمۃ اللہ علیہ محکمۂ فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد کپڑے کی تجارت فرمایا کرتے تھے اس لئے آپ نے بھی ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فوج کی ملازمت اختیار فرمائی ، پھر ایک مرحلے پر آپ نے فوجی ملازمت ترک فرماتے ہوئے کپڑوں کی تجارت شروع فرمائی ۔ آپ نے حضرت خواجہ سید میر غلام حسین احمد چشتی المعروف حضرت خواجہ مرزا سردار بیگ چشتی نوراللہ مرقدہ کے دستِ نورانی پر بیعت فرمائی ۔ آپ کے اہم معمولات اور خاص مشاغل میں نمایاں طورپر تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی راہ میں آپ کی مسلسل کوشش اور غیرمتزلزل جدوجہد ہے ۔ آپ کی شخصیت میں تبلیغ اسلام کی فکر اس قدر قوی اور شدید تھی کہ اس بامقصد کام کی خاطر کئی مقامات کا دورہ فرمایا ۔ حتی کہ آپ نے بنگال سے لیکر نیپال تک پیدل سفر فرمایا ، اس دوران آپ نے ہزاروں بندگانِ خدا کو داخلِ اسلام فرماکر اُنھیں مقصدِ زندگی سمجھایا ۔ آپ بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ حق پر لانے کیلئے ، اُنھیں اپنی ذات کے قریب کرکے اولاً سچی توبہ کرواتے پھر اُنھیں ابتدائی ضروری دینی تعلیم سے مزین فرماتے تھے ۔ آپ کی بارگاہِ بافیض میں بیٹھنے والا شخص ہر قسم کی تعلیم و تربیت سے مالا مال ہوکر اُٹھتا تھا ، نیز آپ کا یہ امتیازی وصف تھا کہ آپ کا مقصد و منشاء کسی کو داخلِ سلسلہ فرماکر صرف بیعت لینا نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کا بنیادی مقصد گمراہ اور بے عمل بندوں کو ایک ایسی شاہراہ ہدایت پر کھڑا کرنا ہوتا تھا جہاں ایک طرف لوگوں کو کمالِ ایمان کی لذت بھی حاصل ہو تو دوسری طرف عبادت و اطاعت کی حلاوت بھی نصیب ہو۔ آپ حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ کمربستہ رہتے اور ہمیشہ باوضو رہا کرتے اور دوسروں کو بھی اس عمل کی ترغیب و تلقین کرتے تھے ۔ آپ کے ۱۰۸ ویں عرس تقاریب کا آغاز ۱۳ ربیع الثانی سے ہوگا ۔
شان اولیاء کا مقام ومرتبہ
خواجہ غریب نوازؒکاایک قول ہے کہ مجھے میرے شیخ نے کہا کہ جس شخص کے اندر تین باتیں پیدا ہوجائیں، وہ خداکا ولی ہوجاتاہے۔جس کے دل میں سمندروں جیسی سخاوت اور وسعت آجائے:یعنی سمندرپر جب کوئی پانی لینے کے لیے آتاہے تو وہ نہیں پوچھتا کہ مسلمان ہو، ہندو، یہودی، عیسائی، سکھ یا بدھ مت کے پیرو کار ہو، سمندر کامعنی یہ ہے کہ جو آئے اوربھرکے لے جائے۔ جس کی شفقت آفتاب جیسی ہوجائے: اس سے مراد یہ ہے جب سورج نکلتا ہے، تو وہ اپنی شعاعیں ڈالنے کے لئے اپنے، پرائے میں تمیز نہیں کرتا، بلکہ اس کی روشنی سب کے لیے برابر ہوتی ہے۔ جس میں زمین جیسی تواضع ہو: زمین کی عاجزی یہ ہے کہ زمین پر برا آدمی چلے تو بھی بچھی رہتی ہے، نیک چلے تب بھی بچھی رہتی ہے، غرض ہندو، یہودی، مسلم، عیسائی، بدھ مت، سکھ جو بھی چلے حتی کہ وہ جو خدا کوہی نہیں مانتا، تب بھی زمین بچھی رہتی ہے تو اسی طرح ولی اچھے، نیک، برے سب کے سامنے تواضع میں رہتا ہے۔جس آدمی میں یہ تین خوبیاں پیدا ہوجائیں، فرمایا وہ اللہ کا ولی ہوجاتاہے۔