قومی اثاثہ جات کی فروخت

   

ذرا بزمِ عشرت سے باہر تو آؤ
تمہیں بھی دکھائیں جو ہم دیکھتے ہیں
مرکزی حکومت کی جانب سے مسلسل قومی اثاثہ جات کی فروخت کی جا رہی ہے ۔ حکومت نت نئے بہانے پیش کرتے ہوئے گذشتہ سات دہوں کے دوران انتہائی مشقت کے ساتھ قائم کئے گئے اداروں کو یکے بعد دیگرے خانگی اداروں کے حوالے کرتی جا رہی ہے ۔ نریندر مودی حکومت کے دور میں کوئی ایک بڑا قومی ادارہ یا اثاثہ قائم نہیں کیا گیا ہے بلکہ جو پہلے سے موجود اثاثے جات ہیں انہیں بھی فروخت کرتے ہوئے ملک کو کنگال کیا جا رہا ہے ۔ خانگی ادارے اور کمپنیاں مالا مال ہو رہی ہیں۔ ملک کے عوام کنگال اور مفلوک الحال ہوتے جا رہے ہیں اور نتیجہ میں سارا ملک کنگال ہوتا جا رہا ہے ۔ مودی حکومت ملک میں انتہائی موثر حکمرانی کے دعوے کرتی ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ 70 سال کے دوران جو کام نہیں کئے گئے تھے وہ کام مودی حکومت کی دو معیادوں میں کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ 70 سال میں ملک میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی تمام ہی حکومتوں نے ملک کے اثاثہ جات میںاضافہ کیا تھا ۔ حکومت اور عوامی شعبہ کو مالا مال کیا تھا ۔ بے شمار ادارے اور کمپنیاں قائم کی گئی تھیں۔ ان کمپنیوں اور اداروں سے سرکاری خزانہ کو مدد مل رہی تھی ۔ لاکھوں افراد کو روزگار حاصل ہو رہا تھا ۔ حکومت کے اداروں کی کارکردگی بھی ٹھیک ٹھاک رہی تھی ۔ کچھ اداروں کی کارکردگی تو بہت شاندار رہی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت تمام قومی اثاثہ جات کو خانگی اداروں اور کمپنیوں کے سپرد کردینے کے ایجنڈہ کے تحت کام کر رہی ہے ۔ حکومت کے مشیر اس ڈھنگ سے یہ کام کر رہے ہیں جن کے اثرات کو عوام آدمی سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے یا پھر جو قومی میڈیا اور ذرائع ابلاغ ہیں وہ حکومت کے ان کاموں سے ہونے والے مضر اثرات سے عوام کو واقف کروانے کی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل نہیںکر پا رہے ہیں یا پھر وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ حکومت اپنے ڈھنگ سے اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے عوام کے سامنے حقیقی منظر کو پیش نہیں کر رہی ہے اور من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے ملک کے قومی اثاثہ جات کو قربان کیا جا رہا ہے ۔
پہلے ہی حکومت نے ملک میں سرکاری ٹیلی کام کمپنیوں کو عملا ختم کردیا ہے ۔ ملک بھر میں نیٹ ورک رکھنے والی بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل کو بتدریج ختم کردیا گیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کمپنیوں کے ملازمین کو رضاکارانہ سبکدوشی کیلئے تیار کیا گیا ۔ اس کی بجائے خانگی کمپنیوں کو فروغ دیا گیا ۔ خانگی کمپنیوں کے اشتہار میں وزیر اعظم ہند کی تصویر استعمال کی گئی جس سے حکومت کی ترجیحات اور اس کے منصوبوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کے علاوہ اسٹیل کمپنیوں میں ملازمین کی تخفیف کرتے ہوئے انہیں بھی غیر کارکرد بتا کر خانگی کمپنیوں کے سپرد کردیا گیا ۔ حکومت مسلسل اس منصوبے کو آگے بڑھاتی جا رہی ہے اور اب حکومت نے نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائین کا آغاز کیا جس کے تحت ملک کے رہے سہے اثاثہ جات کو بھی خانگی شعبہ کے سپرد کرنے کی تیاری کرچکی ہے ۔ اب ملک میں بندرگاہیں ‘ اسٹیڈیمس ‘ برقی ٹرانسمیشن ‘ ٹیلی مواصلات کے علاوہ ریل ‘ روڈ ‘ ائرپورٹس وغیرہ میں بھی خانگی شعبہ کو حصہ داری دینے کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ پہلے ہی ملک کے کئی ائرپورٹس خانگی اداروں اور خاص طور پر اڈانی گروپ کے سپرد کردئے گئے ہیں۔ حکومت کے کئی فیصلوں سے ان مٹھی بھر کارپوریٹس کو فائدہ پہونچا ہے جو بی جے پی یا پھر مرکزی حکومت کے حاشیہ بردار ہیں۔ قومی اثاثہ جات کو مٹھی بھر کارپوریٹس کے سپرد کیا جا رہا ہے اور عوامی شعبہ کو ایک طرح سے بتدریج ختم کرنے کی سمت حکومت اپنے اقدامات سے پیشرفت کرتی جا رہی ہے ۔
اب جو انتہائی بڑے پیمانے پر حکومت نے خانگی شعبہ کیلئے دروازے کھول دئے ہیں ان پر عوام کو حکومت سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت چھ لاکھ کروڑ روپئے مجتمع کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس کو کچھ مخصوص شعبہ جات پر خرچ کرنے کا دعوی کر رہی ہے ۔ اب تک عوام سے مختلف بہانوں کے ذریعہ جو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑ روپئے اینٹھے گئے ہیں ان کا حساب کتاب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ صرف بھاری رقومات کے پیکجس کا اعلان ہو رہا ہے لیکن حقیقت میں عوام تک کچھ نہیں پہونچ رہا ہے بلکہ عوامی شعبہ کو مزید کنگال کرتے ہوئے خانگی کمپنیوں اور کارپوریٹس کو نوازا جا رہا ہے ۔ حکومت کو اپنے منصوبوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔