مرکزی بجٹ ‘ اقلیتی طلباء پھر نظرانداز

   

سرفروشوں نے جو رودادِ جہاں بدلی ہے
عزم بدلا ہے ہر اک فکر جواں بدلی ہے
مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے آج لگاتار اپنا آٹھواں مرکزی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ۔ یہ نریندر مودی حکومت کی تیسری معیاد کا پہلا مرکزی بجٹ بھی تھا جسے آج وزیر فینانس نے لوک سبھا میں پیش کیا اور انہوں نے اپنے بجٹ میں کئی شعبہ جات میں اصلاحات کا اعلان کیا ہے ۔ کئی شعبہ جات کیلئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ کئی شعبہ جات کو مستحکم کرنے کیلئے مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ انکم ٹیکس کی نئی شرحوں اور نئے سلابس کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔ تنخواہ یافت طبقہ کیلئے انہوں نے راحت فراہم کرنے کیلئے بھی پہل کی ہے ۔ دوسرے اہم شعبہ جات کیلئے بھی حکومت کی جانب سے رقومات فراہم کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا گیا ہے لیکن بی جے پی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت نے ایک طرح سے اقلیتی طلباء و طالبات کیلئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپس کو عملا ختم کرنے کی سمت پیشرفت کی ہے ۔ گذشتہ سال بھی اقلیتی طلباء و طالبات کیلئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کیلئے مختص رقومات میں کٹوتی کی گئی تھی اور اس بار بھی حکومت کی جانب سے رہے سہے بجٹ کو بھی عملا ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے او بی سی طلباء و طالبات کیلئے اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح درج فہرست ذاتوں کیلئے بجٹ میں رقم بڑھائی گئی ہے ۔ او بی سی ‘ معاشی پسمادنہ طبقات اور ڈی نوٹیفائی قبائل کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کی رقومات میںاضافہ کیا گیا ہے ۔ تاہم اقلیتوں کیلئے بجٹ میں بڑی حد تک کٹوتی کرتے ہوئے جو بجٹ الاٹ کیا گیا ہے وہ صفر کے برابر ہے ۔ ملک بھر میں اقلیتوں کیلئے پری میٹرک اسکالرشپ کیلئے گذشتہ سال 236.16 کروڑ روپئے کا بجٹ تھا جسے اس بار گھٹا کر محض 90 کروڑ روپئے کردیا گیا ہے ۔ 2023-24 میں یہ بجٹ 337.17 لروڑ تھا ۔ اس کے علاوہ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کیلئے بھی رقومات میں بے تحاشہ کٹوتی کردی گئی ہے ۔ اس بجٹ میں جملہ 801.09کروڑ روپئے کی کٹوتی کردی گئی ہے جو جملہ بجٹ کا 63 فیصد ہوتا ہے ۔ اس طرح مرکزی حکومت نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے اس کے پاس نہ کوئی اسکیم ہے اور نہ ہی تعلیم کیلئے وہ کوئی بجٹ فراہم کرنا چاہتی ہے ۔
سماج کے دوسرے طبقات کیلئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس فراہم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے فنڈز میںاضافہ کیا گیا ہے ۔ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی مودی حکومت نے اقلیتوں کیلئے تعلیمی بجٹ تک کو صفر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جو کٹوتی کی گئی ہے وہ انتہائی زیادہ ہے اور اس کے نتیجہ میں اقلیتوں کیلئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس عملا ختم ہو جائیں گی ۔ یہ بی جے پی حکومت کی ملک کی اقلیتوں کے تعلق سے امتیازی سلوک کی واضح پالیسی اور ثبوت ہے ۔ بی جے پی اب تک ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو اسمبلی یا پارلیمانی انتخابات کیلئے ایک بھی ٹکٹ دینے سے گریز کرتی تھی ۔ اب جبکہ وہ ملک میںلگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار میں ہے تو اس نے اقلیتوں کی تعلیم کے بجٹ میں تک نہ صرف کٹوتی کی ہے بلکہ اسے صفر کے برابر کردینے کی کوشش کی ہے ۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے ساتھ اپنی متعصبانہ سوچ کو اور بھی واضح کردیا ہے اور اس بات کا ثبوت بھی فراہم کردیا ہے کہ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس ۔ سب کا وشواس کا اس کا جو نعرہ ہے وہ محض دکھاوا ہے اور وہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرنے کے معاملے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیںہوسکتی اور نہ ہی اقلیتوں کو ان کا جائز اور واجبی مقام دینے کیلئے تیار ہے ۔ حکومت کو اس بات کا جواز پیش کرنا ہوگا کہ اس نے اقلیتوں ہی کے طلباء کیلئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی رقومات میں کٹوتی کا فیصلہ کیوں کیا جبکہ پہلے ہی سے یہ بجٹ انتہائی معمولی تھا ۔ چند سو کروڑ روپئے بھی اس ملک میں اقلیتوں کی تعلیم کیلئے فراہم کرنے کو حکومت تیار نہیں ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی عوام کی تعلیمی ترقی پر منحصر رہتی ہے ۔ دنیا بھر میں تعلیم کے شعبہ کو اہمیت دی جاتی ہے اور طلباء کو ہر ممکن سہولیات اور مراعات فراہم کرنے کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ طلباء سے مذہبی خطوط پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتا جاتا ۔ تاہم ہندوستان میں اس کے برخلاف صورتحال پیدا کی جا رہی ہے اور اقلیتوں کو چند سو کروڑ کی معمولی رقم بھی اسکالرشپس کے نام پر فراہم کرنے حکومت تیار نہیں ہے ۔ ملک کی اقلیتوں کو اس صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ملک کی ترقی اور ملک کی دولت میں اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقلیتیں تعلیمی اعتبار سے اور معاشی اعتبار سے مستحکم بنیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے خود اپنے طور پر کمربستہ ہوجائیں۔
ذکیہ جعفری ‘ بلند حوصلہ خاتون
ہندوستان کی تاریخ کے بد ترین گجرات فسادات کے بعد قومی منظر نامہ پر کئی چہرے ابھرے تھے ۔ کہیںظاہرہ شیخ تو کہیں کوئی اور ۔ کوئی مظلومیت کی تصویر بنا ہوا تھا تو کوئی ظلم و ستم کی علامت بن گیا تھا ۔ تاہم اس ہجوم میں ایک چہرہ جو سب سے زیادہ واضح طور پر ابھرا تھا وہ تھا محترمہ ذکیہ جعفری کا ۔ محترمہ ذکیہ جعفری سابق ایم پی احسان جعفری کی بیوہ تھیں جنہیں گلبرگ سوسائیٹی قتل عام میں ہلاک کردیا گیا تھا ۔ محترمہ ذکیہ جعفری نے اس غیر انسانی نسل کشی کے خلاف آخری سانس تک جدوجہد کی اور انہوں نے ایک یا دو بار ناکامی نہیں دیکھی ۔ انہیں اپنی جدوجہد میں انتظامیہ کی جانب سے مسلسل اور منظم انداز میں نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی اپنا حوصلہ نہیں ہارا ۔ انہوں نے ظالموں کے خلاف جدوجہد کو اپنی زندگی بنالیا تھا ۔ انہوں نے ظلم کے آگے کبھی ہار کو تسلیم نہیں کیا ۔ عدالتیں ہوں یا پھر انتظامیہ ہو ہر سطح پر انہوں نے ایک حوصلے اور عزم کے ساتھ انصاف کیلئے جدوجہد کی تھی ۔ ان کا انتقال مظلومین کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیلئے ایک بڑا نقصان ہے ۔