ہندوستانی سیاست کے متعلق پیش گوئی کے رحجانات خطرات سے بھرے ہوئے ہیں جبکہ ہماری خطرناک محبت اور امیدی کے زخم بھی اس پر ہیں۔لیکن اگر ہم ماضی کے کسی اگر ایسا کبھی ہے‘ مذکورہ آنے والا دہہ حیرت انگیزوں سے بھرا ہوا ہے
ہندوستان کی ہنگامہ خیز دہہ میں ہندوستانی سیاست کا جائزہ 2029ڈسمبر کے انڈیا ٹوڈے ایشو کے فاسٹ فاورڈ میں جائزہ لیاجارہا ہے۔ ایک79سالہ نریندر مودی مسلسل چوتھی مرتبہ منتخب ہوئے اور اس مرتبہ بڑی بے چینی کے ساتھ راشٹرپتی بھون جانے کی تیاری کررہے ہیں۔
مذکورہ ائین میں ترمیم لائی گئی ہے تاکہ صدراتی انداز میں حکومت کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے اور انتخابی نظام میں بھی زبردست تبدیلی لائی گئی ہے۔
تبدیلی کی نگرانی گذشتہ پانچ سالوں سے نائب وزیراعظم رہے امیت شاہ نے کی ہے۔ لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی انتخابات کرائے جارہے ہیں‘ لیکن حتمی طور پر اختیارات منتخب صدر کے دفتر میں رہیں گے۔
دوسری ائینی تبدیلیوں میں دیکھا جارہا ہے کہ لفظ سکیولرزم کو ائین سے نکال دیاگیا ہے۔ اب ہندوستان ایک ہندو جمہوریت ہے۔ اور پھر اچانک محض ایک صدی کے قریب ایک مقبول بغاوت یہاں پر ہوئے‘ ایک بڑے پیمانے پر مطالبہ شروع ہوا تاکہ عمر بھر کے لئے صدر کے احکامات سے دستبرداری اختیار کی جائے۔
دباؤ میں آکر تمام سیاسی جماعتوں کے طاقتور لوگ معزول کردئے جاتے ہیں‘ مذکورہ دستوری تبدیلی کو واپس لیا جاتا ہے‘ اور تازہ پارلیمانی انتخابات کے احکامات دئے جاتے ہیں۔تصورات؟ کی ہے‘ پوری طرح تصور کے باہر؟ نہیں‘ محض ڈسمبر2009کی حقیقت کو دہرایا ہے۔
بی جے پی کو مقبولیت میں کمی ائی تھی‘ اور اس کی سو سے سیٹیں نمبرون پارٹی مذکورہ کانگریس سے کم تھیں۔
ایل کے اڈوانی ریٹائرمنٹ کے قریب تھے‘ واجپائی ریٹائرڈ ہوگئے تھے اور ایسالگ رہا تھا کہ فوری کوئی راحت نہیں ہے۔ایسا لگ رہاتھا کہ مذکورہ کانگریس کے زیر قیادت یوپی اے نیم مستقبل استحکام میں ہے اور ایسا لگ رہاتھا کہ ملک نے ہندو حقوق کی سیاست کو مسترد کردیاہے۔
بطور گجرات چیف منسٹر نریندر مودی علاقائی سطح پر تقسیم کی سیاست کے محرک بن گئے تھے اور مرکزکے سیاسی اتحاد کے لئے وہ قابل تسلیم نہیں تھے۔
ایسا لگ رہاتھا کہ سب ختم ہوگیا ہے بی جے پی کے افسانے آزادی کے ساتھ لکھے جارہے تھے اور نئی متبادل طاقت کی تلاش کی جارہی تھی۔
سیاسی پنڈتوں کتنے غلط ثابت ہوئے‘ ایک سفید داڑھی والا 2009کا علاقائی باس سال2019میں ہندوستانی سیاست کا بلاشبہ باس ہے‘ ایک پولرائزنگ سیاسی شخصیت‘ مگر اس ڈرامائی تبدیلی ایک محرک بھی ہے جس نے نہرویائی کی ترتیب کو منظم طریقے سے نشانہ بنایاہے۔
دس سال بعد۔ اگلے دہے میں۔ موجودہ ہندوستانی سیاست کی مناسبت سے آپ کس طرح کا اندیشہ لگائیں گے‘ جہاں پر بارہ گھنٹوں کے اندر اقتدار کے پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں (اگر آپ کو یہ مبالغہ ارائی لگتی ہے تو دیویندر فنڈناویس اور اجیت پوار کے درمیان مہارشٹرا میں حالیہ دنوں میں پیش ائے کھیل کا دیکھ لیں)۔
نہیں بھولنا چاہئے کہ 2017مار چ میں ملک کے 71فیصد حصہ پر بی جے پی کا قبضہ تھا‘ اب اس کی حکومت نصف سے بھی کم حصہ پر ہے۔
یہی وجہہ ہے کہ’چوبیس گھنٹے کسی نیوز کی چکر میں پھنسنے کے بجائے بڑی تصویر پر توجہہ مرکوز کرلیں۔
وہیں بی جے پی پارٹی نمبر ون کی حیثیت پر قائم ہے اور اس کے پاس شمالی ہند کی مقبول ریاستیں ہیں اور اس کی بنیادیں مغرب میں بھی ہے جو ایک لیڈر‘ ایک پارٹی‘ ایک قوم کی نظریہ کو فروغ دینے کے لئے کافی ہے