مسجد حرام کے بالائی حصہ سے طواف کرنا

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حج کے موقعہ پر لوگوں کی کثرت کی وجہ سے لوگ مطاف اور مسجد حرام میں سے طواف کرتے ہیں اور بعض مسجد کے اوپری حصہ سے طواف زیارت کرتے ہیں کیا ان کا اوپر سے طواف کرنا صحیح ہے یا مجبوری میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔کس حد تک اس کی اجازت ہے ۔ اور اگر کوئی شخص حطیم کعبہ میں طواف کرے تو کیا اس کا طواف ہوگا یا نہیں ؟
جواب : ازروئے شریعت ‘مسجد حرام میں خانہ کعبہ کا قریب سے یا دور سے طواف کرنا درست ہے۔’بدائع الصنائع : ج ۲ ‘ ص۳۱۳ میں ہے: فیجوز الطواف فی المسجد الحرام قریبا من البیت او بعیدا عنہ۔ لہذا مسجد حرام کے بالائی حصے یا نیچے حصے سے طواف کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں لیکن اگر مسجد حرام کے باہر سے طواف کرے ‘ اس طرح کہ طواف کرنے والے اور خانہ کعبہ کے درمیان مسجد حرام کی دیواریں حائل ہوتی ہیں تو شرعاً ایسے طواف کا اعتبار نہیں ۔ کیونکہ خانہ کعبہ کے اطراف طواف کا حکم ہے ’’ ولیطوفوا بالبیت العتیق ‘‘ (الحج ؍ الایۃ ۲۹) جو مسجد حرام میںقریب یا دور سے کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ مسجد حرام کے باہر سے کرنے سے طواف کاحکم ادا نہیں ہوگا ۔
حطیم کعبہ کے باہر سے طواف کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خانہ کعبہ کا حصہ قرار دیا ’’ ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال لھا ‘ ان قومک قصرت بھم النفقۃ فقصروا البیت عن قواعد ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام و ان الحطیم من البیت و لولا حدثان عھدھم بالجاھلیۃ لرددتہ الی قواعد ابراہیم و لجعلت لہ بابین ‘ بابا شرقیاً و بابا غریبا ‘‘ (البخاری کتاب الحج ‘ باب فضل مکۃ) ۔یعنی بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہاری قوم کے پاس پیسہ کم ہوگیا تو انھوں نے قواعد ابراہیم سے بیت اللہ کو کم کر دیا اور حطیم‘ بیت اللہ کا حصہ ہے اگر تمہاری قوم کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد تک دوبارہ تعمیر کر دیتا اور اس کے دو دروازے ایک مشرقی جانب اور ایک مغربی جانب بنا دیتا ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ بی بی عائشہ اور ایک روایت میں ایک آدمی نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی نذر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ اور اس شخص کو حطیم کعبہ میں نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ۔
اس سے واضح ہیکہ حطیم کعبہ بیت اللہ شریف کاحصہ ہے اس لئے اگر کوئی شخص حطیم کعبہ میں طواف کرے تو اس پر طواف کا اعادہ ضروری ہے ۔ اور اگر دوبارہ طواف نہ کرے اور اپنے وطن لوٹ جائے تو اس پر دم لازم ہوگا کیونکہ حطیم کا حصہ بیت اللہ شریف کا چوتھائی حصہ ہے اور یہ چوتھائی حصہ کا طواف چھوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے طواف میں نقص لازم آگیا اس کی پابجائی دوبارہ طواف سے ہوگی ۔ جب تک وہ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے یا اس کی تلافی قربانی سے ہوگی اگر وہ اپنے وطن کو لوٹ جائے ۔ بدائع الصنائع ج ۲ ص ۳۱۴ میں ہے:والافضل أن یعید الطواف کلہ مراعاۃ للترتیب فان أعاد علی الحجر خاصۃ اجزأہ لان المتروک ھو لا غیر و قد استدرکہ و لم یعد حتی عاد الی اھلہ یجب علیہ الدم لان الحطیم ربع البیت فقد ترک من طوافہ ربعہ۔