مسجد کے لئے پلاٹ کو مسترد کردنے کے لئے مسلم گروپ میں تذبذب

,

   

اے ائی ایم پی ایل بی اتوار کے روز پانچ ایکڑ پر اپنے موقف کا اعلان کرے گا
نئی دہلی۔ نمایاں آوازوں میں شامل ہونے کے بعد مسلمان کمیونٹی میں یہ رائے زور پکڑر ہی ہے کہ نئی مسجد کی تعمیر کے لئے اراضی ایودھیا میں کسی او رمقام پر تسلیم نہیں کی جانی چاہئے۔

اپنے کمیونٹی او رممبرس کے جذبات کی وضاحت کے لئے مذکورہ کل ہندمسلم پرسنل لاء بورڈ سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد‘ رام جنم بھومی معاملے میں سنائے گئے فیصلے کے پیش نظر نئی مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ اراضی کی پیشکش پر اتوار کے روز اپنی رائے پیش کرے گا۔

بورڈ کی جانب سے اس کی ورکنگ کمیٹی کے اتوار کے روز لکھنو میں اجلاس کے دوران اس بات کا بھی فیصلہ کیاجائے گا کہ آیا فیصلہ کے خلاف جائزہ درخواست دائر کی جائے یا نہیں۔

وہیں کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کو عوامی سطح پر آکر بیان نہ دینے کی وجہہ سے مسلم تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایاجارہا ہے‘

مذکورہ حقیقت بھی یہ ہے کہ اراضی قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ یوپی سنٹرل سنی وقف بورڈکی مرضی پر منحصر ہوگا۔یوپی سی ایس ڈبلیو بی نے فیصلہ سنائے جانے کے روز ہی ایک بیان جاری کرتے ہوئے فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور واضح کردیا ہے وہ کسی بھی جائزہ درخواست داخل کرنے کی کوشش میں نہیں ہے۔

یوپی پی سی ایس ڈبلیوبی بھی اس کیس میں ایک درخواست گذار ہے۔تاہم کمیونٹی کی آواز جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے ساتھ آگے بڑھنے کی دیکھائی دے رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہاکہ ”وہیں یہ معاملہ یو پی سی ایس ڈبلیو بی کا ہے آیاوہ اراضی تسلیم کرتی ہیں یا نہیں کرتی ہے‘ میرا نظریہ ہے اس کو اراضی نہیں لینا چاہئے۔

اس کی وجہہ یہ ہے کہ ایودھیا معاملہ بابری مسجد کے متعلق ہے اور جو متنازعہ مقام پر موجو دتھی۔کبھی بھی متبادل مقام کی مانگ نہیں کی گئی ہے۔ معاوضہ کے طور پر پانچ ایکڑ اراضی کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔

مقدمہ ہم ہارچکے ہیں اور فیصلے کا تہہ دل سے ہمیں احترام کرتے ہیں۔ تاپم کسی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر میری سمجھ کے باہر ہے“