محمد نسیم نقشبندی مرسلہ : حافظ صابر پاشاہ
ہر انسان کوئی نہ کوئی عمل ضرور کرتا ہے مگر سب کے اعمال برابر نہیں ہوتے۔ اعمال کی قدروقیمت عمل کرنے والے کے مقام و مرتبے اور حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کے اعمال نیک ہوتے ہیں جبکہ کچھ کے بد۔ بعض لوگوں کے اعمال مبنی برخیر ہوتے ہیں اور بعض کے مبنی بر شر۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسا معیار اور پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہوسکے کہ کون سے اعمال مبنی بر خیر ہیں اور کون سے مبنی بر شر؟ جبکہ ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کوجائز اور مبنی بر خیر سمجھ کر کرتا ہے۔اس سوال کا جواب پانے کیلئے اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان اور اس کے اعمال کی تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے۔ ’’حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خلق فرمایا ہے‘‘۔(الصفت)جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان اور اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ ہیں تو جو ان اعمال کا خالق ہے اس کو انسان سے زیادہ معلوم ہے کہ کونسا عمل خیر ہے اور کونسا شر… کونسا نیک عمل ہے اور کونسا بُرا عمل… کونسا کام جائز ہے اور کونسا ناجائز… انسان کو اعمال کی حقیقت کا پتہ نہیں ہوتا۔ انسان کسی کام کو اچھا سمجھ کر کررہا ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا اور بعض اوقات کسی عمل کو بندہ ناپسند کرکے چھوڑ دیتا ہے مگر وہی اس کے لئے بہتر اور مبنی برخیر ہوتا ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کویوں بیان کررہا ہے۔ وَعَسٰى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسٰى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَO’’اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بہتر ہو اور (یہ بھی) ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بُری ہو اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔(سورۃ البقره )
معلوم ہوا کہ جائز و ناجائز، اچھے اور بُرے، نیک اور بد اور خیروشر کا دارومدار ہماری پسند و ناپسند پر نہیں بلکہ ہمارے خالق و مالک کی پسند و ناپسند پر ہے۔ اچھے اور بُرے عمل کا انحصار عقل پر نہیں بلکہ فرمان الہٰی پر ہے۔ جسے خدا اور رسول ﷺنے اچھا اور مبنی برخیر کہا وہ اچھا ہے اور جسے خدا اور رسول ﷺنے برا یا مبنی بر شر فرمایا وہ برا ہے۔ جسے ہمارے خالق و مالک نے پسند کرلیا وہ عمل خیر ہے اور جس عمل کو ہمارے خالق نے ناپسند فرمایا وہ عمل شر ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں۔ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
٭ جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ دنیا میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں جنہیں انسان کھاتے ہیں۔ مسلمان بھی انہیں ذبح کرتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ایک حلال جانور کو اگر کافر ذبح کرے تو وہ بجائے حلال کے حرام ہوجاتا ہے جبکہ اسی جانور کو اگر مسلمان ذبح کرے تو وہ حرام نہیں بلکہ حلال ہوگا۔ دونوں نے اسے گلے سے کاٹا مگر ایک کا ذبح کیا ہوا حرام جبکہ دوسرے کا ذبح کردہ حلال ہے۔ عمل ایک جیسا مگر اس کا نتیجہ بالکل مختلف ہے۔ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ایک جانور کو حرام اور دوسرے کو حلال کیا ہے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ کافر نے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنے وضع کردہ طریقے سے ذبح کیا جبکہ مسلمان نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے طریقے اور اس کی رضا کے مطابق ذبح کیا ہے۔ سو جو خالق کے پسندیدہ طریقے پر ذبح کیا گیا وہ جائز و حلال ہوگیا اور جو خالق کے نہیں بلکہ اپنے پسندیدہ طریقے پر ذبح کیا گیا وہ حرام ہوگیا۔
٭ دنیا میں متعدد اقسام کے جانور ہیں۔ گائے، بھینس وغیرہ بھی جانور ہیں اور خنزیر بھی جانور ہے۔ اعضاء بھی مکمل ہیں۔ ہیں سارے جانور مگر خنزیر حرام ہے جبکہ گائے، بھینس اور دیگر جانور حلال ہیں۔ بعض لوگ خنزیر کو شوق سے کھاتے بھی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اسے اچھا سمجھتے ہیں تو کھاتے ہیں اگر اچھا نہ سمجھیں تو کھائیں کیوں؟ مگر مسلمان اسے نہیں کھاتا۔ تو یہ فرق کیوں ہے؟۔ فرق صرف یہ ہے ہم کسی شے کو حلال یا حرام خود نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے رب نے جس شے کو حرام قرار دیا ہے اسے ہم حرام سمجھتے ہیں ۔ جانور کا گوشت بھی غذا ہے تو ہمارے خالق کو ہمارے بارے زیادہ معلوم ہے کہ کون سی غذا ان کے لئے اچھی ہے اور کون سی اچھی نہیں۔ ڈاکٹرز بھی بیمار آدمی کو پرہیز بتاتے ہیں تاکہ آدمی کی صحت ٹھیک رہے۔ اگر ڈاکٹر کو یہ علم ہوگیا ہے کہ کون سی چیز کس آدمی کیلئے مفید یا ضرر رساںہے تو اللہ تعالیٰ جو ہر شے کا خالق و مالک ہے اسے کیوں نہیں علم؟ ڈاکٹر کو طویل محنت کے بعد جو علم حاصل ہو ا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے اس علم ازلی کا ہی ایک ذرہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام کی ہیں ان میں ہمارے لئے بے شمار نقصانات ہیں جو کہ آج میڈیکل سائنس کے ذریعے ثابت ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ صرف یہ دیکھے مولیٰ نے کس چیز کو اچھا کہا ہے وہ اسے اپنائے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے برا یا حرام فرمایا اس سے بچے۔