نئی دہلی۔ معروف شاعر عمران پرتاب گڑھی کے نئے اقلیتی سل سربراہ کی حیثیت سے تقرر نے نہ صرف کانگریس ورکرس کو حیرت میں ڈال دیابلکہ مسلم تنظیمیں بھی حیران ہوگئے ہیں۔
اس کی وجہہ پرتاب گڑھی نے کبھی بھی کانگریس پارٹی کے لئے کام نہیں ہے وہ صرف ایک مہم کار رہے ہیں‘ حالانکہ انہوں نے 2019میں مرادآباد سے لوک سبھا کا الیکشن بھی لڑا تھا جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اپنے تقرر کے بعد عمران پرتاب گڑھی نے ٹوئٹ کیاکہ”جو بھروسہ قیادت او راقلیتی ڈپارٹمنٹ نے مجھ پر کیاہے اس کے لئے سخت کرنے کی میں کوشش کروں گا۔
عوامی مسائل پر میں سڑکوں پر رہوں گا“۔
ان کے تقرر کے بعد مسلم تنظیموں کی جانب سے تیز تنقیدیں کی گئی ہیں۔صدر مجلس مشاورت نوید حامد نے کہاکہ وہ کسی کے شخصی مخالف نہیں ہیں کیونکہ وہ مسلمانو ں کے بشمول تمام طبقات کے مابین سمجھدار‘ پختہ سیاسی قیادت کو تیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
مگر ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہاکہ ”اقلیتی محکمہ جس میں جعفر شریف‘ ارجن سنگھ‘ اے آر انتھولے نے سبق میں اپنے خدمات انجام دئے ہیں اب ایک پیشہ وار شاعر کے سپرد کردیاگیاہے۔
کیا کامیابی ہے! جن لوگوں نے کانگریس صدر‘ راہول گاندھی‘ پرینکا گاندھی کو مشورہ دیاہے وہ سمجھتے ہیں مسلمان انہیں پارٹی کے اقلیتی محکمہ کے نئے صدر کے طور پر بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ وہ کسی دوسرے کانگریسی کے مقابلہ میں زیادہ لوگوں کو جمع کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی شاعری کے ساتھ راغب کریں گے“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ”کانگریس میں موجود ان خیر خواہوں کے پاس ایک نقطہ یہ ہے مسلمان ماضی میں ا ن کے مقصد کی طرح ایک ہجوم کے طور پراستعمال کئے جاتے رہیں وہ کسی عوامی ہجوم سے زیادہ نہیں ہیں“۔
انہوں نے ہی نہیں بلکہ سوشیل میڈیاپر بھی اس بات کو لے کر ہنگامہ چل رہا ہے۔ کانگریس قائدین بالخصوص پارٹی کے مسلم قائدین نے ان کے اقلیتی سل کے صدر کی حیثیت سے تقرر پر حیران ہیں کیونکہ وہ ماضی میں اے اے پی او رایس پی کے حامی رہے ہیں۔
ایک صحافی شکیل اخترنے اشارہ دیاکہ”نوجوان قائدین نے کے لئے بہت سارے عہدے ہیں مگر اس وقت میں کانگریس کومسلمانوں کے لئے ایک سمجھدار قیادت کی ضرورت ہے او رارجن سنگھ جیسے قد آور سینئر لیڈر کو اس محکمہ کا صدق مقرر کیاجانا چاہئے تھا“۔
مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران کا تعلق یوپی سے ہے او روہ ملک بھر میں کافی مقبول ہیں اور اگلے سال اسمبلی انتخابات بھی وہاں پر ہونے والے ہیں تو اقلیتی ووٹ بینک تک رسائی کے لئے یہ کام کیاگیاہے‘جس سے اس وقت یہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ مدد گارثابت ہوسکتا ہے۔
مگر کانگریس قائدین نے یوپی میں اتفاق رائے سے کہا ہے کہ جزوی طور پر پارٹی زمینی سطح سے جڑی ہے اور طنزیہ انداز میں کہاکہ پارٹی ووٹوں کو شامل کرنے کے لئے پارٹی کے پاس کوئی محفوظ اکاونٹ نہیں ہے۔
اس تقرر پر حیران ہونے والے ایک اور فرد عمران مسعود ہیں جس کو دہلی کا سکریٹری شریک انچار مقرر کیاگیاہے‘ او راپنے بیانات میں متنازعہ رہے ہیں۔
مذکورہ کانگریس قائدین نے کہاکہ کانگریس کے اقلیتی قائدین کو نظر انداز کرکے دوسری پارٹیوں سے ائے ہوئے لوگوں کو اہم عہدے دئے جارہے ہیں۔
پارٹی کے ایک اندرونی کا کہنا ہے کہ پارٹی کو بی جے پی کے ووٹوں کو توڑنے کے لئے ایک برہمن قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ تیس سالوں سے پارٹی نے این ڈی تیواری کے بعد کوئی چیف منسٹر نہیں دیکھا ہے۔
کانگریس کو ایک اثر والے طبقے کی ضرورت ہے جس کی اس میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ موجودہ ریاستی صدر اجئے کمار لالو سڑکوں پر اتر کر لڑنے والے ہیں مگر طبقہ واری شناخت کی کمی ہے حالانکہ وہ او بی سی ہیں۔
اترپردیش میں ایس پی اوربی ایس پی کے درمیان اقلیتوں ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہے مگر اس میں روز بہ روز کمی آرہی ہے اور پنچایت الیکشن میں ایس پی نے دوسرے پارٹیوں کے مقابلے بہتر کام کیاہے لہذا سماج وادی پارٹی کے لئے حالات سزا ہیں
۔کانگریس قائد وشواناتھ چترویدی نے کہاکہ ”کانگریس پچھلے تین دہوں سے ایک ووٹ بینک کے پیچھے بھاگ رہی ہے جو اس کا نہیں ہے‘ او روہ او بی سی ہے۔
پارٹی کا اصل ووٹ برہمن‘ مسلم اور ایس سے تھا مگر برہم کلیدی حیثیت رکھتے تھے جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمان او رایس سے ان کے ساتھ رہیں۔