کرونا وائرس کے اثرات کا ہوا میں زندہ رہنے کے متعلق ایک اسٹڈی کے منظرعام پر آنے کے بعد کچھ حالات میں میڈیکل عملے کے لئے ڈبلیو ایچ او نے ”ہوا سے بچنے کے تدابیر‘‘ کو قابل غور قراردیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ مذکورہ کرونا وائرس ہوا میں زندہ رہ سکتا ہے‘ توقف کرسکتا ہے اور اگر ہوا میں گرمی اورنمی رہتی ہے تو اس کی برقرار رہنے کا انحصار ہوسکتا ہے۔
کرونا وائرس کے اثرات کا ہوا میں زندہ رہنے کے متعلق ایک اسٹڈی کے منظرعام پر آنے کے بعد کچھ حالات میں میڈیکل عملے کے لئے ڈبلیو ایچ او نے ”ہوا سے بچنے کے تدابیر‘‘ کو قابل غور قراردیا ہے۔
مذکورہ وائرس بوندا باندی‘ یا پھر مائع کے تھوڑے سے تکڑے کی وجہہ سے منتقل ہوتا ہے زیادہ کھانسی اور چھینک سے اس کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔
ڈاکٹرماریہ ویان کھر کھوی‘ ڈبلیو ایچ او کی بیماریوں اور جانوروں سے امراض کے پھیلاؤ کی نگرانی کرنے والے یونٹ کی سربراہ نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران رپورٹرس سے پیر کے روز کہاکہ”جب آپ ایروسول کو تیار کرنے کے عمل کو ایک طبی نگرانی کی سہولت کے طور پر دیکھتے ہیں‘ تو آپ کو اس کے امکانی اثرات کا اندازہ ہوتا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہوا میں کچھ وقت تک کے لئے زندہ رہتے ہیں“۔
انہوں نے مزید کہاکہ ”یہ صحت سے جوڑے تمام ورکرس کے لئے اہم ہوجاتا ہے کہ وہ مریضوں کی خدمات اور اس عمل پر کام کرنے کے دوران زیادہ محتاط رہیں“۔ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سانس کے امراض کے ذریعہ یہ انسان سے انسان کے رابطے میں آنے کے بعد پھیلاتا ہے۔
ہوا میں اس کا پھیلاؤ ہوسکتا ہے‘ لہذا طبی عملے کو اس حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔