کانگریس ‘ منفی پروپگنڈہ سے نمٹنا ضروری

   

جموںو کشمیر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے ۔ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو اکثریت حاصل ہوگئی ہے جبکہ بی جے پی نے ہریانہ میں ہیٹ ٹرک کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے ۔ کسی بھی ریاست میں تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنا ایک بڑی سیاسی کامیابی ہوتی ہے تاہم جو عوامل اور وجوہات ہریانہ میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوئی ہیں ان کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس ہریانہ میں پوری طرح سے پچھڑ ہی گئی ہے ۔ اس نے خوب مقابلہ کیا تاہم بی جے پی کی کچھ سیاسی سازشوں اور اس کے آلہ کار عناصر کی وجہ سے پارٹی ضرور اقتدار سے دور ہی رہی ہے ۔ چونکہ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے اوریہاں یکے بعد دیگرے مختلف ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کاسلسلہ جاری رہتا ہے ایسے میں کانگریس کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ ہریانہ کی شکست کا جائزہ لینا اور وجوہات کا پتہ چلاتے ہوئے ان کو دور کرنا بھی ضروری ہے ۔ تاہم یہ عمل صرف ہریانہ تک محدود نہیں رہنا چاہئے ۔ دوسری ریاستوں کیلئے بھی پارٹی کو اپنی حکمت عملی میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کرنا چاہئے ۔ اب جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کا اعلان آئندہ چنددنوںمیں کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی اور اس کی ٹرول آرمی اور اس کے سیاسی آلہ کاروں کی جانب سے کانگریس کے خلاف پروپگنڈہ اور مہم شروع کی جاسکتی ہے بلکہ کچھ حد تک شروع بھی کردی گئی ہے ۔ کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے اس کی حلیفوں کے حوصلے پست کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جاسکتا ہے ۔ عوام میں ایک غلط تاثر پیدا کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ پارٹی اور اس کے قائدین کے تعلق سے نت نئے حربے اختیار کرتے ہوئے ان کے تعلق سے عوام میں بدگمانیاں یا غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ اس کیلئے بی جے پی کے پاس باضابطہ ایک ٹرول آرمی بھی موجود ہے ۔ اس صورتحال میں کانگریس پارٹی کو چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جو منفی پروپگنڈہ ہوگا اس کا جواب دینا چاہئے ۔
جس طرح سے راہول گاندھی نے اپنے خلاف ہونے والے منفی پروپگنڈہ اور ٹرولنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر اس کا جواب دیا ہے اور اپنے تعلق سے عوام کی رائے کو تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح سے کانگریس پارٹی کو بھی اس طرح کے منفی پروپگنڈہ کے خلاف زیادہ سرگرمی سے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ منفی پروپگنڈہ حالانکہ کچھ دیر تک ہی چل پاتا ہے لیکن انتخابات کے موسم میں یہ عوام کے ذہنوںپر اثر انداز ہوسکتا ہے اور اس سے نتائج پر اثر ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی اس حربے کے استعمال میں مہارت رکھتی ہے ۔ ایسے عناصر کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو بظاہر تو بی جے پی مخالف ہوتے ہیں لیکن یہ سارا کام بی جے پی کیلئے اور بی جے پی کے ہی اشاروں پر کرتے ہیں۔ ایسے عناصر چاہے کوئی بھی ہوں ان کا پردہ فاش کیا جانا چاہئے ۔ ان کے چہرے کو بے نقاب کیا جانا چاہئے اور ان سے دوری اختیار کرتے ہوئے انہیں عوام کی نظروں میں لانے کیلئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مصلحت کے تحت کچھ قائدین اور جماعتوں کا بھرم رکھا جاتا ہے اور ان حقیقی چہرے بے نقاب نہیں کئے جاتے ۔ تاہم اب اس حکمت عملی کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے عناصر کے حقیقی چہروں کو بے نقاب کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور رائے دہندوں کی نظروں میں منفی اور جھوٹے پروپگنڈہ کو بے اثر کیا جاسکے اور درست فیصلہ کرنے میںعوام کی رہنمائی بھی ممکن ہوسکے ۔
ویسے تو ہر ریاست کے اسمبلی انتخابات اور ان کے نتائج اہمیت کے حامل ہوتے ہیں تاہم مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے نتائج کی زیادہ اہمیت ہے ۔ مہاراشٹرا ملک کی بڑی ریاست ہے اور جھارکھنڈ کے نتائج کا اثر بہار میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ بہار میں آئندہ سال انتخابات ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ حلیف جماعتوں میں ایک اعتبار کی فضاء پیدا کی جائے ۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھا جائے ۔ چند نشستوں کیلئے کسی سے مفاہمت کو ٹالا نہ جائے اور جو دوہرے چہرے ہیں انہیں بے نقاب کرتے ہوئے ان سے جتنا جلد ممکن ہوسکے دوری اختیار کرتے ہوئے واضح موقف اختیار کیا جائے ۔