درگاہ کے محافظین اور بی جے پی قائدین میں اس وقت تصادم پیش آیا جب دائیں بازو گروپس نے دعوی کیا کہ درگاہ کے احاطہ میں شیولینگ ہے
حیدرآباد۔ یکم مارچ کے روز کرناٹک کے ضلع گلبرگہ کے الانڈ تعلقہ کی حضرت لاڈلے مشائخ انصاری شریف کی درگاہ کے بعد سمیر اور مسلمانوں کا ایک گروپ کھڑا ہوا تھا۔ سمیر کے مطابق اس اجتماع کا مقصد فرقہ پرست بی جے پی/آر ایس ایس کو شیوراترے کے روز درگاہ میں قبضہ کرنے کی خاطر داخل ہونے سے روکنا تھا۔
تاہم اس گروپ پر ایک پرتشدد حملہ کیاگیا او ریہ حملہ کسی اور نہیں بلکہ لاٹھیاں تھامے ہوئے پولیس والوں نے کیاتھا‘ جس نے اس گروپ پر نہ صرف حملہ کیا بلکہ اس کو ذلیل بھی کیاہے۔ اس حملے کی تفصیلات جاننے کے لئے سیاست ڈاٹ کام نے ایک فیملی کے ممبر سے بات کی جو اس حملے سے اب بھی بازیافت ہونے کی کوشش کررہے ہیں جو کرناٹک کے ضلع گلبرگہ میں ان کے ساتھ دودن قبل پیش آیاہے۔
سیاست ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے 24سالہ سمیر نے کہاکہ ”میں ابھی گھر نہیں جاسکتا ہے‘ میڈم۔پولیس اٹھا لے گی۔ایک فارم میں چھپ کر انہوں نے پچھلی رات گذاری۔گذارے کے لئے جو کچھ بھی دستیاب ہے وہی کھاکر وہ اپنا وقت گذار رہے ہیں
اس کی شروعات کیسے ہوئے
درگاہ کے محافظین اوربی جے پی قائدین کے درمیان میں تصادم ایک بڑے کھیل کا منصوبہ ہے۔ تاکہ مسلم مقام پر ایک ہندو دیوتا کی مورتی رکھی ہونے کا دعوی کیاجاسکے۔ اس خاص معاملے میں اس بات کادعوی کیاجارہا ہے کہ درگاہ کے احاطہ میں شیو لنگ رکھا ہوا ہے۔
تشدد کی شروعات یکم فبروری کے روز اس وقت ہوئی جب کرونیشوار مٹ سیدا لنگا سوامی کے سربراہ نے ”الانڈو چلو“ کا اعلان کیاتاکہ شیو لنگ کی ”صفائی“کاکام کیاجاسکے۔سمیر نے کہاکہ ”یہ لوگ بیدر ایم پی بی جے پی لیڈر بھگواناتھ کھوبا کی سنتے ہیں“۔
انہو ں نے یہ بھی کہاکہ مقامی اراکین اسمبلی کھوبا کے چمچے ہیں سارا کھیل درگاہ پر اختیار حاصل کرنے کا ہے
درگاہ کی تاریخ
مذکورہ درگاہ کو فی الحال ایک تنازعہ کاسامنا ہے جو ریاستی محکمہ آرکیالوجی اورہرٹیج کا ایک عمارت ہے۔
مذکورہ حکومت کے منظور شدہ دستاویزات دیکھاتے ہیں یہ درگاہ او رسیاہ مسجد جس کی تعمیر عادل شاہ دور حکومت کے جنرل افضل خان کے بھائی علی فرہاد نے کی تھی درگاہ سے کچھ فاصلے پر ہے۔ یہ دونو ں تعمیرات ریاست کے محفوظ یادگارہیں۔
کلبرگی کا یہ شہر الند 14ویں صدی کی درگاہ برائے صوفی سنت حضرت شیخ علاؤ الدین انصاری المعروف لاڈلے مشائخ کے علاوہ
بند نواز گیسودرازؒ کے لئے مشہور ہے
کشیدگی کے بعد
اس جھگڑے کے بعد النڈ میں سی آر پی سی کے تحت دفعہ 144نافذ کردیاگیاہے۔ تاہم 2مارچ کی اولین ساعتوں میں پولیس دستے النڈ کے مسلم اکثریتی والے علاقوں میں داخل ہوئے اور خواتین کے بشمول کئی افراد کو گرفتار کرلیا۔
سمیر کی بہن 26سالہ آمینہ اب بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔ فجر کی نماز سے قبل پولیس والوں کا ایک گروپ سمیر کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کی بہن کو گرفتارکرلیا۔سمیر کی خالہ جو گرفتار شدہ عورت کی ساس بھی ہیں نے کہاکہ میرے کو چپل سے پیٹا گیاہے۔
فرزانہ نے مزید کہاکہ ”ایسا مارے جیسے کہ وہ بچی گنہگار ہے“۔
فرزانہ اورسمیر کے بیانات کودیکھا جائے تو اس گرفتار ی کے وقت کوئی لیڈی پولیس جوان موجود نہیں تھے۔ آمینہ کے جسم کے تمام حصوں پر پیٹا گیاہے۔
فرزانہ کے بیان کے مطابق مذکورہ پولیس اس کے جسم کا کوئی حصہ پولیس نے نہیں چھوڑا ہے۔
جب آمینہ نے پولیس سے برقعہ پہنے کا استفسار کیاتو پولیس نے نفرت انگیز طریقہ سے کہاکہ ’برقعہ پہنے گی تو“۔ اس سارے واقعہ کی گواہ آمینہ کے تین معصول بیٹیاں ہیں۔
آمینہ کی نند فاطمہ نے مزیدکہاکہ آمینہ کے جسم سے ڈپٹا کھینج کر عقب میں ان کے ہاتھوں کو باندھنے کے لئے اس کااستعمال کیاگیاہے۔غمزدہ فاطمہ نے کہاکہ ”ہم تو درگاہ کے باہر گئے بھی نہیں تھے میڈم‘ ہم خواتین بچوں کے ساتھ گھر پر ہی تھے“
پولیس کادعوی پتھر بازی ہوئی
جب النڈ تعلقہ کے پی ایس ائی مہانتیش جی پٹیل نے تبصرہ کیاکہ”تمام مسلمان پتھر بازی میں ملوث ہیں جس میں پولیس جوان زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد انہیں گرفتار کیاگیاہے“۔
انہوں نے 500عورتیں اور 2000مرد پتھر بازی میں ملوث ہیں۔ سمیر نے کہاکہ ”یکم مار چ سے قبل یہ نہیں ہوا تھا“۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس تشد د کے نتیجے میں دولوگوں کی موت ہوئی ہے۔ جن کی تدفین میں دائیں بازو گروپس نے رکاوٹ پیدا کی تھی۔
جب سمیر سے پوچھا گیا کہ آیایہ حجاب معاملے کا نتیجہ ہے جس پر سمیر نے سادگی میں جواب دیا کہ ”کچھ نہ کچھ تو چاہئے نہ میڈم ہمیں مارنے کے لئے“
نوٹ۔متاثرین نے ناموں کو تبدیل کرکے خبر شائع کرنے کی خواہش کے بعد یہ جانکاری فراہم کی ہے۔