کرناٹک بی جے پی میں انتشار

   

Ferty9 Clinic

برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کو ملک کی مختلف ریاستوں میں اب بتدریج اختلافات اور خلفشار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے حالات سازگار نہیں ہیں۔ وہاں خود بی جے پی کے درجنوں ارکان اسمبلی چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے خلاف ہیں اور ان کے طرز کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ آدتیہ ناتھ حکومت کی کارکردگی سے ریاست کے عوام بھی حد درجہ ناراض ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کورونا بحران کے وقت میں ریاستی حکومت ان کیلئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اترکھنڈ میں بی جے پی کو صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کو تبدیل کرنا پڑ اہے ۔ موجودہ چیف منسٹر کی اب تک کی کارکردگی بھی پارٹی کیلئے اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ۔ اسی طرح اب کرناٹک میں بی جے پی کیلئے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ خود بی جے پی کے کئی قائدین بشمول ارکان اسمبلی ‘ کونسل اور وزراء تک بھی چیف منسٹر کے خلاف سرعام ریمارکس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایڈورپا نے بھی آمرانہ طرز عمل اختیار کرلیا ہے اور کانگریس پر موروثی سیاست کا الزام کرنے والی بی جے پی کے چیف منسٹر خود ریاست میں موروثی سیاست کر رہے ہیں۔ کئی سرکاری محکمہ جات اور وزارتوں میں چیف منسٹر کے افراد خاندان خاص طور پر ان کے فرزند کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے ۔ عہدیداروں میں متعلقہ وزراء سے زیادہ چیف منسٹر یا ان کے افراد خاندان کا اثر پایا جاتا ہے ۔ پارٹی کے سینئر قائدین مسلسل ریمارکس کر رہے ہیں کہ ایڈورپا نے صورتحال کو ابتر کردیا ہے ۔ وہ اپنے افراد خاندان اور فرزند کو کنٹرول کرنے کی بجائے دوسرے وزراء کے کام کاج میں زیادہ مداخلت کر رہے ہیں۔ کچھ قائدین تو ریاستی حکومت میں کرپشن کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں کروڑ روپئے کے آبپاشی پراجیکٹس کے کنٹراکٹس کسی مشورہ یا اجلاس کے بغیر قریبی افراد کو سونپے جا رہے ہیں۔ چیف منسٹر انتظامیہ پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور وہ عوام میں بھی اپنی امیج کھوتے جا رہے ہیں۔چیف منسٹر نہ وزراء کی رائے کو اہمیت دے رہے ہیں اور نہ ہی عوامی احساسات کو خاطر میں لا رہے ہیں۔
سینئر قائدین کا کہنا ہے کہ ریاست کے بیشتر وزراء بھی چیف منسٹر کے طرز کارکردگی سے خوش نہیں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت اس تعلق سے فوری کوئی کارروائی کرے ۔ جہاں تک چیف منسٹر ایڈورپا کا سوال ہے وہ ریاست میں ایک مقبول اور طاقتور لنگایت لیڈر ہیں۔ بی جے پی کیلئے جنوبی ہند میں پہلے چیف منسٹر ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی کا سب سے بڑا چہرہ وہی ہیں۔ ایسے میں ایڈورپا کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے سے قبل بی جے پی کو دس مرتبہ سوچنا ہوگا ۔ تمام اقدامات اور ان کے اثرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی فارمولا تیار کرنا ہوگا ۔ ایڈورپا کے رویہ میں ہٹ دھرمی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ۔ ماضی میں وہ اپنی من مانی پر روک لگائے جانے کے بعد بی جے پی سے مستعفی بھی ہوچکے تھے اور علیحدہ پارٹی بھی انہوں نے قائم کرلی تھی ۔ ریاست میں جے ڈی ایس۔ کانگریس حکومت کو زوال کا شکار کرنے میں بھی ایڈورپا نے اہم رول ادا کیا تھا اور دونوں پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کی انحراف کیلئے حوصلہ افزائی کی تھی ۔ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار سے علیحدگی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ ریاستی وزراء اور سینئر قائدین و ارکان اسمبلی سے بھی کوئی مشورہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ بی جے پی کیلئے ان کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ من مانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بحیثیت مجموعی جو صورتحال کرناٹک میں بی جے پی کیلئے پیدا ہوئی ہے وہ نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کیلئے ایڈورپا کے خلاف کسی طرح کی تادیبی کارروائی آسان نہیں ہے ۔ اسی طرح ناراض قائدین ‘ وزراء اور ارکان اسمبلی و کونسل کو مطمئن کرنا بھی مشکل مرحلہ ہوگا ۔ جب خود بی جے پی کے قائدین کی جانب سے چیف منسٹر کے خلاف ریمارکس کئے جا رہے ہیں تو اس سے عوام میں ہونے والے منفی اثرات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی قیادت نے ابھی تو ٹال مٹول والا رویہ ہی اختیار کیا ہوا ہے تاہم یہ رویہ پارٹی کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا ۔ اس سے ناراض قائدین کی تنقیدوں میں شدت پیدا ہوجائیگی اور ریاست کے عوام میں بی جے پی کی امیج بھی متاثر ہو کر رہ جائے گی ۔