لکھنو میں مذکورہ طلبہ سے ملاقات کے دوران‘ انہوں نے کہاکہ ارٹیکل370کی برخواستگی جموں اورکشمیر میں ترقی میں تیزی لائے گا
لکھنو۔ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے کشمیری طلبہ کے ایک گروپ کو بتایا کہ وہ یہاں پر ان کی مقامی سرپرست ہیں۔لکھنو میں مذکورہ طلبہ سے ملاقات کے دوران‘ انہوں نے کہاکہ ارٹیکل370کی برخواستگی جموں اورکشمیر میں ترقی میں تیزی لائے گا۔
علی گڑھ‘ گوتم بدھ نگر اور غازی آباد کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم 65کشمیری طلبہ سے ملاقات کے دوران انہو ں نے کہاکہ”اس کا (ارٹیکل 370کی برخواستگی) کا لوگوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ سب سے اہم چیز بات چیت ہے“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ”آپسی تبادلہ خیال او ربات چیت ہمیشہ سے ہی بہتر نتائج برآمد کرتی ہے“۔مذکورہ طلبہ کو اسکالر شپ او رفیس ادائیگی میں کسی قسم کی تکلیف پیش آرہی ہے تو اس میں مدد کا بھروسہ دلاتے ہوئے چیف منسٹر نے ہاکہ ”میں آپ لوگوں کا سرپرست ہوں“۔انہوں نے کہاکہ ”ہمارا مذہب الگ ہوسکتا ہے مگر تمام ہمارے بچے ہیں۔
ہم پریشانی میں آپ کو چھوڑ نہیں سکتے۔معاشرے کے تمام طبقات سے میں بات کررہاہوں اور مجھے خوشی ے میں نے کشمیری طلبہ سے بھی بات چیت کی ہے“۔انہوں نے ہاکہ ”آج یہا ں پر آپ تعلیم کے لئے ہیں‘ کل ہوسکتا ہے کہ انتظامی عہدیدار بن جائیں۔ لہذا کافی اہمیت کا حامل ریاست کے متعلق جانکاری رہے“۔
چیف منسٹر نے طلبہ سے استفسار کیا کتنے لوگ پہلی مرتبہ لکھنو ائے ہیں۔انہوں نے محسوس کیا کہ تمام طلبہ کا پہلا دور ہ ہے اور عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ لکھنو میں مختلف سیاحتی مقامات پر طلبہ کو لے جانے کو یقینی بنائیں۔
بات چیت کے دوران کشمیری طلبہ نے پیسوں کی قلت اورفیملی ممبرس سے بات چیت میں رکاوٹ کا مسئلہ اٹھایا۔ غازی آباد کے ایک تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے طالب علم نے کہاکہ ”کشمیری طلبہ کو کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ ہم نے چیف منسٹر سے بات کی اور انہوں نے اس کو حل کرنے کا بھروسہ دلایا“۔
علی گڑھ کے تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک او رطالب علم نے کہاکہ ”کچھ کشمیر ی طلبہ احتجاج کررہے ہیں۔ ہم ان کے جذبات کا احترام کرتے ہیں مگر جمہوریت‘ مگر ہم مختلف سونچ پر دروازے بند نہیں کرسکتے“۔
علی گڑھ میں زیر تعلیم ایک طلبہ نے کہاکہ”ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں‘ مگر مثبت چیزوں پر آگے بڑھنا ٹھیک ہے۔ ہم اب بھی اپنے گھر والو ں سے بات نہیں کرسکتے ہیں۔کشمیر میں حلات بدل گئے ہیں‘ مگر ہمیں بہتر کی امید ہے“۔
مذکورہ ریاستی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشمیری طلبہ کی حصہ داری بھی چاہتی تھی مگر مذکورہ طلبہ نے اس سونچ کو مسترد کردیا۔