’’دل ملے یا نہ ملے ہاتھ مِلاتے رہیئے‘‘
رسمِ دنیا کو نبھاؤ بڑی تدبیر کے ساتھ
ہندوستان ایک وفاقی جمہوریت والا ملک ہے ۔ یہاں کئی ریاستیں ہیں جہاں گورنرس اور حکومتیں موجود ہیں۔ مرکزی سطح پر بھی ساری ملک کیلئے حکومت قائم ہے ۔ وزیر اعظم اس کے سربراہ ہیں۔ ریاستوں میں چیف منسٹرس حکومتوں کے سربراہ ہوتے ہیں جبکہ ریاست کے سربراہ ہونے کا رتبہ گورنر کو حاصل ہے ۔ ملک میںجو طرز حکمرانی ہے وہ تمام کو اپنے اپنے اختیارات دیتی ہے اور اس کے مطابق سبھی کو کام کرنا ہوتا ہے ۔ ہماری آزادی کے سات دہوں سے زیادہ کے عرصہ میں ہندوستان میں وفاقی جمہوریت نے انتہائی موثرا ور منظم انداز میں کام کیا ہے ۔ یہاں ہر کسی کو اپنے اپنے حدود اور اختیارات کا پاس و لحاظ رہا ہے اور سبھی نے دوسروں کے دائرہ کار میںمداخلت کئے بغیر اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دئے ہیں۔ اسی طرز عمل اور روایت کی وجہ سے ہماری جمہوریت نے کامیاب سفر طئے کیا ہے ۔ ملک و ریاستوں کے امور طئے پائے ہیں۔ ملک اور ریاستوں نے سات دہوں میں مثالی ترقی کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنی شناخت اور پہچان بھی بنائی ہے ۔ اس نظام کی وجہ سے ملک میں سیاسی ٹکراؤ نے کبھی انتظامی ٹکراؤ کی صورت اختیار نہیں کی تھی ۔ تاہم حالیہ کچھ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ریاستوںمیں گورنرس اور حکومتوں کے درمیان کسی نہ کسی مسئلہ پر ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ گورنرس پر ریاستی حکومتوں کے کام کاج میںرخنہ اندازی کے الزامات عائد ہو رہے ہیں تو گورنر س کی جانب سے بھی ریاستوں پر گورنر کے عہدہ کا احترام نہ کرنے کی شکایات عام ہونے لگی ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے ملک اور ملک کی ریاستوں کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ گورنرس کا عہدہ دستوری ہوتا ہے اور اس کی عزت و توقیر سبھی کیلئے ضروری ہوتی ہے ۔ اسی طرح ریاستی حکومتیں بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں اور ان کے وقار اور مرتبہ کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے ۔ اس میں سیاسی نظریات کے ٹکراؤ کو رخنہ اندازی کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اگر سیاسی نظریات کو دستوری و عوامی عہدوں کے کام کاج میں مداخلت کا موقع ملتا ہے تو اس سے وفاقی طرز حکمرانی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جو مناسب نہیں تھی ۔ ان ریاستوں میں گورنرس اور ریاستی حکومت کے مابین باضابطہ ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات و جوابی الزامات بھی عائد کئے گئے تھے ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں کی گئی تھیں اور ایک دوسرے کے کام کاج میں مداخلت بیجا کے دعوے بھی کئے گئے تھے ۔ مغربی بنگال ہو کہ دہلی ہو ‘ تلنگانہ ہو کہ اب کیرالا ہو یا کچھ ماہ قبل تک مہاراشٹرا ہو صورتحال ابتر ہوگئی تھی ۔ حکومت کی جانب سے گورنرس کے عہدہ کا احترام کئے بغیر پرا ن پر مرکزی حکومت کے ایجنٹس کی طرح کام کرنے کے الزام عائد کئے گئے تھے ۔ گورنرس کی جانب سے حکومتوں پر ان کا احترام کئے بغیر ان کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے جوابی الزام عائد ہوئے تھے ۔ ایک دوسرے کی عزت و وقار اور احترام کا خیال کئے بغیر باضابطہ ایک دوسرے کے خلاف فریق بنتے ہوئے اظہار خیال کیا گیا تھا ۔ اس طرح کے واقعات اور صورتحال سے عوام کی نظروں میں گورنرس کے عہدہ کے وقار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتوں کی امیج پر بھی اس کے منفی اثرات ہونے لازمی تھے ۔ سبھی کو اس ساری صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی اور ہے بھی ۔ جب تک گورنر اور حکومت کے مابین بہتر اور موثر تال میل نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کئے بغیر کام نہیں کیا جاتا اس وقت تک باہمی تعلقات میںسرد مہری اور کشیدگی پیدا ہونی لازمی ہے ۔
چاہے گورنرس ہوں یا پھر ریاستوں کی منتخبہ حکومتیں ہوں ہر ایک کو اپنے حدود اور ذمہ داریوں دونوں ہی کا جائزہ لینا چاہئے ۔ صرف برتری یا بالادستی کی خواہش کے ساتھ کام کرنے کی بجائے دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک دونوں ہی جانب سے سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی اس وقت تک باہمی تعلقات کو بہتر نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کا ایک ہی سیاسی فکر سے تعلق ہو ۔ مختلف سیاسی نظریہ رکھنے کے باوجود ریاست کے عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے کام کرنے اور دستوری و قانونی ذمہ داریوں کی تکمیل کو ترجیح دینے کے عزم کے ساتھ اس صورتحال کا ازالہ ہوسکتا ہے اور ایسا کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے ۔