ہم کو اپنے اجداد کے فیصلے پر فخر ہے۔ شکیل شمسی

,

   

سال1947میں اگست کا مہینہ تھا جب پورا برصغیر فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس رہاتھا۔مذہبی منافرت کی اسی آگ میں ہمارے جد مولانا اولاد حسین شاعر مرحوم اپنے پانچ بیٹوں‘

اہلیہ‘ دو مسلم خادماؤں اور ہندو نوکر کے ساتھ ہندوستانی ریاست وتیا کے ہندواکثریت والے ایک محلے میں ایسا محصور تھے کہ پانی کا نل کاٹ دئے گئے تھے‘

شہر میں کرفتو تھا اور کھانے پینے ک سارا سامان ختم ہوچکاتھا۔

ان کے لڑکوں کی جنرل مرچنٹ کی دوکان جلائی جاچکی تھی۔ اسی ماحول میں ہندوستانی فوج کے ایک افسر نے ان کے مکان پردستک دی اور کہاکہ ان کو وہان سے نکالنے کے لئے ملٹری ٹرک تیار ہے۔

سب کے سب تن پر پہنے ہوئے کپڑوں اورکچھ زیورات لے کر ملٹری کے ٹرک پر سوار ہوئے جس میں ان کو گوالیار کے اسیٹشن تک پنچایا

جہاں ایک پلیٹ فارم پر پاکستان جانے والی خصوصی ٹرین کھڑی تھی اور دوسرے پلیٹ فارم پر دہلی جانے والی گاڑی۔

ہمارے دادا نے ایک تاریخی فیصلہ کیا اور وہ دہلی جانے والی ٹرین پر سوار ہوگئے اور وہاں سے لکھنو کی گاری لے کر اپنے آبائی وطن پہنچ گئے۔

اپنے دادا کے اس فیصلے پر ہم جتنا بھی ناز کریں اتنا کم ہے۔ ہم کو فخر ہے کہ صرف ان ہی کے ایک بہترین فیصلے کی وجہہ سے ہم سب ہندوستان میں آرام سے رہے اور ہم سب کو یہاں ہر طرح سے کامیاب زندگی گزارنے کا موقع ملا۔

ہم ہی نہیں ہندوستان میں رہنے والا ہر مسلمان اس بات پر فخرکرتا ہے کہ اس کے اجداد نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیااور مسلمانوں کو یہ احساس دن بہ دن اس لئے قوی ہوتا گیاکہ پاکستان کو وہاں کے مسلمانوں نے خود ایک جہنم میں تبدیل کردیا۔

مگر ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی سیاست داں ہیں جو حکومت میں رہے تو ان کوہندوستان میں اپنے آباد ہونے پر ناز رہا جب وزیربن کر ملائی مکھن کھاتے رہے تو ہندوستان اچھا لگا‘جب ایک پیسہ اپنی جیب سے لگائے بغیراربوں روپئے کی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی قائم کرلی تو ہندوستان کے گیت گاتے رہے۔

لیکن جب وقت نے حکومت چھین لی‘ اقتدار دوسری پارٹی کے قبضے میں چلاگیا‘ مظلوم کسانوں کی زمینیں ہڑپنے کا موقع ہاتھ سے نکل گیااو راپنی زیادتیوں کا کچاچٹھا عوام کے سامنے آنے لگا تو اپنے اجداد کے فیصلے کو غلط قراردینے لگے۔

موصوف فرمانے لگے کہ ہندوستان میں رہنے کا جو فیصلہ ان کے اجداد نے کیاتھا اس کی سزا ان کومل رہی ہے۔

اب اس بات کی دہائی دے رہے ہیں کہ ان پر مسلمان ہونے کی وجہہ سے ظلم ڈھایاجارہا ہے مگر ذرا کوئی ان صاحب سے دریافت کرکے کہ اب آپ حکومت میں تھے تو آپ نے کتنے مسلم نوجوانوں کو صرف اس جرم کی پاداش میں جیل میں ڈالاتھاکہ انہوں نے قف خوروں کے خلاف آوازاٹھائی تھی او رموصوف ان دنوں وزیراوقاف تھے؟

۔کوئی ان سے پوچھے کہ جب مسلم نوجوانوں کے ہوٹل‘ دوکانیں اور ریستوراں آپ نے اپنے رتبے کی وجہہ سے گروائیں اس وقت آپ کو ہندوستان میں رہنے کے اپنے اجداد کے فیصلے پر شرمندگی کیوں نہیں ہوئی؟۔

جب ایک وقف خوف ایک مسلم دشمن‘ ایک بابری مسجد کا سوداکرنے والا اور اسلام کے خلاف فلمیں بنانے والے مفسد کی آپ سرپرستی فرمارہے تھے تون اس وقت آپ کو اپنے اجداد کا غلط فیصلہ صحیح کیوں لگ رہاتھا؟۔

جب آپ کے اشارے پر مسلم کسانوں کو ایک پولیس افیسر چرس رکھوا رکھوا کر جیل میں ڈال رہاتھا اور وہ اپنی زمینیں آپ کے نام لکھنے پر مجبورہورہے تھے اس وقت پاکستان کیوں یاد نہیں آیا؟۔ جب اوقاف کی زمینیں خالی کرواکر آپ وہاں رہ رہے یتیموں اور بیواؤں کو بے گھر کررہے تھے اس وقت پاکستان نہ جانے کے فیصلے آپ کو درست لگا رہاتھا؟۔

آپ کے پاؤں کے نیچے سے سیاسی زمین کھسک گئی تو ہندوستان میں رہنے کا اجداد کا فیصلہ غلط لگنے لگا؟۔

جس ملک نے آپ کو فرش سے عرش پر پہنچایا‘ جس نے ایک عام آدمی کو وزیربننے کاموقع فراہم کیا‘ جس ملک نے آپ کے پورے کنبے کو ایم پی اور ایم ایل اے بنوادیا اسی میں رہنے کا فیصلہ غلط لگنے لگا؟۔

آخرمیں کہتے چلیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہندوستان کا ماحول بھی کچھ طاقتیں خراب کررہی ہیں‘ چند لوگ مل کر نہتے افراد کو نشانہ بناتے ہیں اور پورے ملک کے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ فسطائیت اور فرقہ پرستی کی سرپرستی کرنے والے یہاں بھی پیدا ہوگئے ہیں مگر کیاپاکستان کے حالات یہاں سے بہتر ہیں؟۔

کیایہاں آج بھی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم کوفخر ہے کہ ہمن ہندوستان میں رہتے ہیں۔

جن کو یہاں رہ جانے شرمندگی ہے وہ نامہ اعمال پر نظر ڈالیں اوریہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کی وہ لاٹھی تو نہیں جس میں آواز نہیں ہوتی؟۔