ہندو عورت کے ساتھ سفر کرنے والے مسلم مرد پر منگلورو میں دائیں بازو کے ہجوم کا چاقو سے حملہ

,

   

منگلورو۔ کرناٹک کے منگلورو میں ایک 23سالہ مسلم شخص دائیں بازو کارکنوں کے چاقو سے حملے کے بعد تشویش ناک حالت میں ہے‘ کیونکہ ایک بس میں وہ ہندو عورت کے ساتھ سفر کررہاتھا۔

ساحلی کناڈا ضلع میں یہ واقعہ پیش آیا ہے‘ جمعرات کے روز ایک بس جو منگلوروسے بنگلوروکے راستے پر جارہی تھی اس میں یہ واقعہ پیش آیاہے۔

اس بات کی پتہ نہیں چلا پایاہے کہ متاثر کے متعلق حملہ آور گروپ کو اس شخص کی شناخت سفر کی تفصیلات کی کس طرح جانکاری ملی ہے۔

مذکورہ شخص کی شناخت محمد انور کے طور پر وئی ہے جو اپنی اسکول کی دوست کے ساتھ بنگلورو سفر کررہاتھا جس کو شہر میں ملازمت کی پیشکش کی گئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ رات تقریبا9:30بجے کے قریب ایک مردوں کے گرو پ نے بس کو پاپم ویل سرکل کے قریب روکا اور بین مذہبی دونوں کے ایک ساتھ سفر کے متعلق سوالات پوچھے۔

اس تکرار میں مذکورہ شخص کو تیز دھار اوزار گھونپ دیاگیا۔ اس شخص پر حملہ کیاگیا ہے جس کی وجہہ سے وہ شدید طور پر زخمی بھی ہے۔

منگلورو کے کانکاڈی پولیس اسٹیشن میں ائی پی سی کی دفعہ 307اور دیگر کے تحت اقدام قتل کا ایک ایف ائی آر درج کرلیاگیاہے۔

مگر اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں ائی ہے
درایں اثناء متعدد خبریں سامنے ائی جس میں دعوی کیاگیا کہ مذجورہ ہجوم میں موجو د ارکان وشواہند وپریشد(وی ایچ پی) او ربجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

درحقیقت واقعہ پیش آنے کے بعد ایک واٹس ایپ پیغام بھی گشت کرنے لگا جس میں لکھا تھا کہ”بجرنگ دل کے آج(جمعرات) کے روزجاریہ اپریشن میں۔ ایک ہندو نوجوان عورت جس کو مسلم مرد کے ساتھ منگلورو سے بنگلورو فرار ہورہی تھی۔

اس جوڑے کو بجرنگ دل کارکنوں نے پامپویل کے قریب روک لیا“۔ واٹس ایپ پر مسیج بجرنگ دل نے شیئر کیاتھا۔ وی ایچ پی نے دوسری جانب کہاکہ اس نے روکا اور اس جوڑے سے پوچھ تاچھ کی کیونکہ یہ ”لوجہاد“ کا معاملہ تھا‘مگر ایک دوسرے گروپ تھا جس نے تشدد برپا کیاتھا۔

وی ایچ پی کے ایک کارکن نے ہندوستان ٹائمز کو بتایاکہ”ہم لڑکی کو لوجہاد سے بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر ہجوم اکٹھا ہوا او روہ پرتشددہوگیا۔ معاملہ کی جانچ پولیس کررہی ہے“۔

ایک ایسے وقت میں یہ واقعہ سامنے آیاہے جب اترپردیش‘ گجرات‘ اور مدھیہ پردیش کے بشمول متعدد ریاستیں بین مذہبی شادی کی روک تھام کے لئے قانون متعارف کروا رہے ہیں‘ جس کو دائیں بازو کارکن ”لوجہاد“ قراردیتے ہیں