’’آئیں مسجدیں آباد کریں ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
روئے زمین کا سب سے بہتر حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے ۔ اﷲ سے پیار رکھنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسجد سے بھی پیار کرتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’اور وہ شخص ( عرش کے سایہ میں ہوگا ) جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے ‘‘ (بخاری ) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّـٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ … ‘‘ مسجد کی خدمت کرنا اور اُسے آباد رکھنا ایمان کی علامت ہے ۔
اپولو ہاسپٹل میں میرے سینئر رفیق مرحوم ڈاکٹر راج گوپالن جو تلنگانہ کے پہلے ہارٹ سرجن تھے مجھ سے اکثر کہا کرتے ’’صبح کی فجر کی اذان سن کر میرا پوترا میرے پاس دوڑا دوڑا آتا اور کہتا ’انّا انّا اُٹھو … اَللّٰهُ أَكْبَرْ … ہم لوگ تو اُٹھ جاتے مگر تمہارے زیادہ تر لوگ سوتے رہتے ‘‘۔ میں لاجواب ہوجاتا ۔ بقول علامہ اقبالؔ کے ؎
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
اُمتِ محمدیہ میں بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو مسجدوں میں جمے رہتے ہیں اور وہاں سے ہٹتے نہیں ۔ فرشتے ایسے لوگوں کے ہم نشین ہوتے ہیں اور اُن کو ڈھونڈتے رہتے ہیں ، اگر وہ کسی وجہ سے مسجد نہ آسکیں اگر وہ بیمار پڑجائیں تو اُن کی مزاج پرسی کرتے ہیں ۔
فرض نماز ہمیشہ مسجد میں باجماعت پڑھنے کی کوشش کیجئے ۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : نمازباجماعت کے لئے جانے والا ہر قدم ایک نیکی کو واجب کرتا ہے اور ایک گناہ کو مٹاتا ہے ‘‘۔ (ابن حبان) آپﷺ نے مزید فرمایا مسجد کی خدمت کا ہر کام جنت میں لے جانے والا کام ہے ۔ سورۂ بقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے ایسے کامیاب بندوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا ہے جنھیں قرآن حکیم سے ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔ اُن میں ایک صفت یہ ہے کہ وہ اﷲ کی مسلسل یاد کے لئے نماز قائم کرتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں تمہارا ذکر کرونگا ‘‘ ۔ لہذا جو شخص نماز پڑھے وہ معاملات میں شریعت کی پابندی بھی کرے تاکہ اُس کی نمازیں قبول ہوں ۔ جس طرح آپ نے رمضان کریم میں مسجدوں کو آباد کیا ، فرائض ، تراویح ، سنت و نوافل پڑھ کر اُسی طرح سال کے بارہ مہینے مسجدوں کو آباد رکھیئے ۔ ان شاء اﷲ فلاح پائیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے ۔ فرشتے آمین ‘‘ کہتے ہیں لہذا تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اُس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اس لئے مسجد کی خدمت کیجئے اور اُسے آباد رکھیئے پھر کس کی کیا مجال کہ وہ مسجد کی طرف بُری نظر ڈالیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی اپنی مسجدوں کو روایتی عبادت گاہ کے علاوہ ایک ادارہ کی طرح آباد کریں جن میں تعلیمی ، اصلاحی ، فلاحی ، سماجی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں۔ (باقی آئندہ )