آداب بارگاہِ نبوت ﷺ ’’انوارِ احمدی‘‘ کے تناظر میں

   

مولانا حافظ سید شاہ مدثر حسینی
نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اصل ایمان ہے مسلمانوں میں اِس جذبہ کو پیدا کرنے کیلئے عظمتِ رسالت ﷺپر مشتمل مضامین کا تذکرہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، بیسیوں اہلِ علم نے یہ کام انجام دیا ہے، لیکن حضرت شیخ الاسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ نے انوارِاحمدی کے ذریعہ مسلمانوں کی جو خدمت انجام دی اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اِس کتاب ’’انوارِاحمدی‘‘ کے مطالعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و وارفتگی حاصل ہوتی ہے۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے: ترجمہ: نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے کوئی قلب میرے صحابہ کے قلوب سے پاکیزہ تر نہیں دیکھا اس لئے ان کو میری صحابیت کیلئے پسند فرمایا جوکچھ وہ اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھاہے اور جو بُرا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بُرا ہے۔ (رواہ دیلمی)
حضرت امام انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ کیسی عظمت اور ادب حضرت ﷺکی صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دلوں میں تھا اور کس درجہ آداب کی رعایت رکھتے تھے، باوجود اس کے اگر کسی سے بمقتضاے ٔ بشریت یا سادگی سے کوئی ایسی حرکت ہوجاتی جس سے شائبہ بے ادبی کا ہوتا ساتھ ہی کلامِ الٰہی میں تنبیہ اور زجروتوبیخ نازل ہوتی جس سے سب متنبہ اور ہوشیار ہوجاتے چنانچہ کسی صحابی نے بلندآواز سے حضرت ﷺ کے روبروکچھ آواز کی، غیرتِ الٰہی نے جوش کیا اور عتاب نازل ہوا: ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کریم ﷺکی آواز سے اونچی نہ کیا کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زورسے بولتے ہو اس طرح ان کے روبرو زورسے نہ بولاکرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبربھی نہ ہو‘‘۔ (سورۃ الحجرات) جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی حضرت صدیق اکبرؓ نے قسم کھائی کہ اب حضرت ﷺسے بات ایسی آہستہ کروںگا جیسے کوئی راز کی بات کہتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ﷺسے بات اس قدر آہستہ کیا کرتے تھے کہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ (انوارِاحمدی) 
حضرت امام انواراللہ فاروقی نوّراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ﷺ کی تواضع اور خوش خلقی کی وجہ سے وہ آداب جو حضرت ﷺکے ساتھ متعلق ہیں مسلمانوں کو شرعاً معلوم ہونے کی کوئی صورت نہ تھی سوائے اس کے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بیان فرمادیا ہے۔ چنانچہ ایساہی ہواکہ اس آیت شریفہ میں ایک ادنیٰ سی بات کو ذکر فرمایا کہ اگر کوئی شخص حضرت ﷺ کے روبرو پکارکے بات کرے اس کی تمام کی کرائی محنتیں اور سارے اعمال اکارت اور بربادہوجائیں گے، اب عاقل کو چاہئے کہ اس پر قیاس کرلے کہ جب ادنی سی بے ادبی اور گستاخی کا انجام یہ ہوتو اور گستاخیوں کا حال کیا ہوگا۔ حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ بتانا چاہتے ہیں کہ ادب ہرکس وناکس کو نصیب نہیں ہوسکتا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ دولت ان لوگوں کے حصہ میں رکھی ہے جن کے دل امتحانِ الٰہی میں پورے اترے اور جن میں کامل طورپر تقویٰ کی صلاحیت موجود ہے۔ حماقت اور بے وقوفی بے ادبوں کی نص قطعی سے ثابت ہے، تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا یہ حال تھا کہ اگر حضرت ﷺکو پکارنا منظور ہوتا تو ناخنوں سے دروازہ کو ٹھوکتے۔ (انوارِاحمدی ؍ص؍۲۱۸)
حضرت امام انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ انوارِاحمدی کے صفحہ:۲۱۹ پر آیتِ شریفہ ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا‘‘ (سورۂ نور)کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو آپس میں ایک دوسرے کی طرح یا نام لے کر پکارنے سے منع فرمایا اور خودبھی سوائے چند ایک مقامات کے صفاتِ کمالیہ ’’يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ‘‘ اور ’’ يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ‘‘سے خطاب فرمایا؛اس کا مقصد جناب رسالت مآب ﷺکی عظمت، شرف، تعظیم وتوقیر کے ظاہر کرنے کے سوا اور کیا ہے۔