آر ٹی ای قواعد کی خلاف ورزی کے باعث اسکولس میں استاد۔ شاگرد تناسب میں عدم توازن

   

حیدرآباد : لائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ یعنی قانون حق تعلیم (آر ٹی ای) کے قواعد پر عملدرآمد کرنے میں کی جانے والی خلاف ورزیوں اور اس میں نرمی دینے سے ریاست میں کئی اسکولس میں طلبہ ۔ اساتذہ کے تناسب کی برقراری میں ایک بے ترتیبی اور بدنظمی پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کیا جاتا ہیکہ آر ٹی ای ایکٹ میں ہر کیلو میٹر کیلئے ایک پرائمری اسکول اور ہر تین کیلو میٹر کیلئے ایک اپر پرائمری اسکول اور ہر پانچ کیلو میٹر کیلئے ایک ہائی اسکول چلانے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ چنانچہ ہر حکومت نے کوئی نیا اسکول شروع کیا یا موجودہ اسکول کو اپ گریڈ کیا لیکن اس میں اسکولس کے قیام اور موجود اسکولس کو اپ گریڈ کرنے میں فاصلہ کے قاعدہ پر سختی کے ساتھ عمل نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ ہیڈ ماسٹرس اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری راجابھانو نے کہا کہ دیہاتوں اور ٹاؤنس میں سینکڑوں اسکولس شروع کئے گئے اور اپ گریڈ کئے گئے لیکن ایسا مقامی حالات کے پیش نظر اور عوامی نمائندوں اور دیگر قائدین کی درخواست پر کیا گیا‘‘۔ اس کے لئے ایک کے بعد دیگر حکومتوں نے آر ٹی ای ایکٹ کے مقررہ فاصلہ کی برقراری کے معاملہ میں نرمی دی۔ ایسا کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا کہ آیا اسکول چلانے کیلئے اس میں طلبہ کی اقل ترین تعداد ہوگی یا نہیں اور گاؤں کی آبادی سے طلبہ کی متوقع تعداد کے بارے میں کوئی پیش قیاسی نہیں کی گئی۔ عارضی طور پر بالخصوص ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد ریاست میں اسکولس کی کافی تعداد ابتدائی مراحل میں ہے۔ ریاستی حکومت نے نئے ماڈل اسکولس، کے جی بی وی اور مختلف گروکل ریسیڈنشیل ویلفیر اسکولس اچھی تعداد میں شروع کئے ہیں چونکہ نئے شروع کئے گئے اسکولس میں بہتر سہولتیں ہیں اس لئے ضلع پریشد، منڈل پریشد کے تحت چلائے جانے والے گورنمنٹ اسکولس کے زیادہ تر طلبہ نے نئے اسکولس میں داخلہ لینا شروع کیا جس کے نتیجہ میں گورنمنٹ اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد میں بہت کمی ہوگئی۔ نیز سرکاری انگلش میڈیم اسکولس نہ ہونے کی وجہ سے بھی اولیائے طلباء نے ان کے بچوں کو خانگی اسکولس میں داخلہ دلوایا۔ روزگار کی تلاش میں لوگوں کے دیہاتوں سے شہروں کو نقل مقام کرنے سے بھی دیہاتوں میں گورنمنٹ اسکولس میں طلبہ کی تعداد کم ہورہی ہے۔ اسکولس کے ایڈمنسٹریشن کی نگرانی کیلئے ریگولر ای ای اوز اور ڈپٹی ای اوز نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اسکولس استاد۔ شاگرد کے مناسب تناسب کے بغیر چلائے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر 4,187 زیڈ پی ایچ اسکولس ہیں جن میں 48,661 اساتذہ کام کررہے ہیں اور طلبہ کی تعداد 7,62,333 ہے۔ یعنی ہر اسکول میں طلبہ کی تعداد 182 ہے اور ہر کلاس روم میں طلبہ کی تعداد 36، ایسے 410 اسکولس ہیں جن میں طلبہ کی تعداد 10 سے کم ہے اور ان اسکولس میں 3,322 ٹیچرس برسرخدمت ہیں۔ منڈل پریشد اپر پرائمری اسکولس میں بھی اس طرح کی صورتحال ہے جہاں 1,975 ایسے اسکولس ہیں جن میں ہر کلاس میں طلبہ کی تعداد 10 سے کم ہے لیکن ٹیچرس کی تعداد 10,010 ہے۔ منڈل پریشد پرائمری اسکولس کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے جہاں 12,125 اسکولس ایسے ہیں جن میں ہر کلاس میں طلبہ کی تعداد 10 سے کم ہے اور 23,096 ٹیچرس کام کررہے ہیں۔