آسام میں صرف پانچ برادریوں کو مسلمان تسلیم کیا جائیگا

,

   

گوڑیا، موڑیا، دیسی، جولہا اور سید پانچ برادریاں، چیف منسٹر بسوا سرما کا بیان

گوہاٹی: چیف منسٹر ہمنتا بسوا سرما نے آسام میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے مبینہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی شناخت کے لیے ایک نیا حربہ اپنایا ہے۔ انہوں نے آسام کے اصل ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کا کام شروع کیا ہے۔پہلی قسط میںآسامی مسلمانوں کے 5 قبائل کی شناخت کی گئی ہے۔ ان میں گوڑیا، موڑیا، دیسی، جولہا اور سید ہیں۔ حکومت ان طبقات کو قبائلی درجہ دے گی اور ان کی صحت، تعلیم، ترقی کا انتظام کرے گی۔ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کے بعد بنگلہ دیشی دراندازوں کو ملک سے نکالنے کا کام شروع کیا جائے گا۔منگل کو سی ایم ہمنتا بسوا سرما کی قیادت میں کابینہ کے وزرا کی میٹنگ ہوئی۔اس میٹنگ میںآسام کی 5 مسلم ذاتوں کو خلونجیا یعنی ہندوستانی مسلمان کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ قبیلے گوڑیا، موڑیا، دیسی، جولہا اور سید ہیں۔ یہ ہندوستان میں پہلا واقعہ ہے جس میں مسلمان قبیلہ کو الگ الگ ہندوستانی کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔آسام حکومت کے وزیر جینت ملب نے بتایا کہ ماہر کمیٹی نے خلونجیا مسلمانوں کو الگ سے نشان زد کرنے کی سفارش کی ہے، تاکہ سرکاری فلاحی اسکیموں کے فوائد ان تک پہنچ سکیں۔ جینت نے یہ بھی کہا کہ ایک خلونجیا مسلمان صرف ہندوستان میں پیدا ہونے سے مسلمان نہیں ہو جاتا۔اس کے لیے اسے اصل میںآسامی مسلمان ہونا چاہیے۔ آسام میں مسلمانوں کے دو فرقے ہیں، ایک خلونجیا مسلم اور دوسرا میاں مسلم۔ میاں مسلمان انہیں کہا جاتا ہے جو بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پرآسام میں داخل ہوئے ہوں یا جن کے خاندان کی جڑیں بنگلہ دیش میں ہیں۔ ان میاں مسلمانوں کو بھی بنگلہ دیشی درانداز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اورآسامی معاشرے میں ان سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ آسام کے لوگوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش سے آنے والے ان لوگوں نے ان کے جنگلات، دریاؤں اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اورآہستہ آہستہ وہ سیاست، کاروبار، نوکریوں میں حاوی ہو رہے ہیں۔بتادیں کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں دراندازی ملک کیآزادی کے بعد سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس کے خلاف کئی بڑے مظاہرے ہو چکے ہیں، جن میں اب تک درجنوں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ان دراندازوں کا سب سے زیادہ اثرآسام میں پڑا ہے۔ وہاں ان دراندازوں کی تعداد جملہ آبادی کے تقریباً 25تا30 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ریاست میں تقریباً ایک چوتھائی سیٹیں ایسی ہیں، جن پر یہ درانداز فیصلہ کن پوزیشن پرآ گئے ہیں۔تاہم ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی نہیں بلکہ بنگلہ بولنے والے ہندوستانی ہیں۔ اس کے لیے وہ کئی دستاویزات بھی دکھاتے ہیں۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان دراندازوں نے یہ دستاویزات رشوت دے کر حاصل کی ہیں، اس لیے انہیںآسام کے اصل مسلمانوں سے الگ کرنا بہت ضروری ہے۔