گوہاٹی۔ آسام چیف منسٹر ہیمنتا بسواس نے ہفتہ کے روم کہاکہ ریاست میں کثر ت ازواج پر امتنا ع کی حمایت میں ایک مضبوط حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے قبل ریاستی حکومت نے آسام میں کثر ت ازدواج پر امتنا ع عائد کرنے کے لئے قانون متعارف کروانے کے لئے حالات کامطالعہ کرنے کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی تھی۔
متعلقہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد حکومت نے ریاستی اسمبلی میں قانون لانے سے پہلے عوامی رائے طلب کی تھی۔ ایکس جو ٹوئٹر کے نام سے مشہور ہے پر سرما نے کہاکہ ”عوامی نوٹس کے جواب میں ہمیں 149جملہ مشورہ وصول ہوئے ہیں۔
ان میں سے 146بل کی حمایت میں ہیں‘ جو عوام کی سخت حمایت کااشارہ کرتے ہیں۔ تاہم تین تنظیموں نے بل کی مخالفت کا اظہار کیاہے“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”اب ہم مذکورہ عمل کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جس کے ذریعہ اگلے 45دنوں میں بل کا حتمی مسودہ تیار کرنا ہے“۔
اپنی رپورٹ میں کمیٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ائین یونین اور ریاستوں کو مخصوص موضوعات پر قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ شادی کانکرنٹ لسٹ میں ہے‘اسی وجہہ سے وفاقی اور ریاستی حکومت دونوں حکومتی قوانین نافذ کرسکتے ہیں۔
کمیٹی کے نتائج کے مطابق‘ نظریہ بدعت(ارٹیکل 254)کہتا ہے کہ اگر کوئی ریاستی قانون مرکزی قانون سے متصادم ہے تو مرکزی قانون اس وقت تک مقدم رہے گا جب تک ریاستی قانون کو صدر جمہوریہ ہند کی پیشگی منظور حاصل نہیں ہوتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ ائین کے ارٹیکل 25اور 26مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔یہ حقوق باقابل تلافی ہیں۔ بلکہ وہ سماجی بہبود اور اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی اخلاقیات‘ صحت اور نظم ونسق کے قوانین کے ذریعہ مجبور ہیں۔
کمیٹی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ”اسلام کے حوالے سے عدالتوں نے کہاہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے۔
بیویوں کی تعداد کو محدود کرنے والی قانون سازی مذہب پر عمل کرنے کے حق میں مداخلت نہیں کرتی اوریہ”سماجی بہبود او راصلاح‘‘ کے دائرہ کار میں ہے۔لہذا ایک زوجیت کے حق میں قوانین ارٹیکل 25کی خلاف ورزی نہیں کرتے“۔
کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ جو کثرت ازدواج کو غیر قانونی قراردینے والے ریاستی مقننہ کو قانون اختیا ر دیاجائے۔