آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ

   

کینبرا؍ ویلنگٹن، ٹورنٹو: آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے جمعہ کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اسرائیل سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی عدالت کو جواب دے جس نے گذشتہ ہفتے فلسطینی علاقوں پر اس کے قبضے اور وہاں آباد کاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔رہنماؤں نے بیان میں کہا، ”اسرائیل کو عالمی برادری کے تحفظات سننے چاہئیں۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت شہریوں کا تحفظ اہم ترین اور ضروری ہے۔ فلسطینی شہریوں کو حماس کو شکست دینے کی قیمت ادا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اسے ختم ہو جانا چاہیے۔”رہنماؤں نے یہ بھی کہا، اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جاری تشدد کی کارروائیوں کیلئے انتہا پسند آباد کاروں سے جواب طلبی کرنے، مغربی کنارے میں اپنے آباد کاری پروگرام کو تبدیل کرنے اور دو ریاستی حل کی جانب کام کرنے کی ضرورت ہے۔آسٹریلیا میں اسرائیل کے سفارت خانے نے جمعرات کو کہا کہ اس نے فلسطینی کمیونٹی کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کی۔گذشتہ ہفتے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے کہا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں اس کی آباد کاری غیر قانونی ہے اور وہ جلد از جلد وہاں سے دستبردار ہو جائے۔ یہ اسرائیل۔فلسطین تنازعہ پر عدالت کے اب تک کے مضبوط ترین نتائج ہیں۔رہنماؤں کے بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئی سی جے کو بنیادی جواب دے۔اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ ہفتے آئی سی جے کی رائے کو “بنیادی طور پر غلط” اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور اپنے مؤقف کا اعادہ کیا تھا کہ خطے میں سیاسی تصفیہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اسرائیلی رہنماؤں نے کہا ہیکہ قانونی لحاظ سے یہ علاقہ مقبوضہ نہیں ہے کیونکہ وہ متنازعہ زمینوں پر ہیں لیکن اقوامِ متحدہ اور زیادہ تر عالمی برادری انہیں مقبوضہ علاقہ تصور کرتی ہے۔ فروری کے بعد دوسرے مشترکہ بیان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ وسیع تر علاقائی جنگ کے خطرے کی وجہ سے غزہ میں جنگ بندی مزید ضروری ہو گئی تھی۔
یہ بیان امریکی نائب صدر کملا ہیریس کی جانب سے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا۔ ہیریس نے غزہ میں جنگ بندی معاہدہ طے کرنے کیلئے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا ہے جس سے فلسطینی شہریوں کے مصائب کم ہوں گے۔ ہیریس نے صدر جو بائیڈن سے زیادہ سخت لہجہ اختیار کیا۔