شائد مقبولیت کم ہونے کے خوف سے یہ این ڈی اے حکومت ایک کے بعد دوسرا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہی ہے ۔ مثال کے طور پر لوک سبھا کے ذریعہ سٹیزن شپ( ترمیم)بل کا معاملہ ‘ جس سے ممکن ہے کہ بنگالی ہندؤ بی جے پی کی حمایت کریں گے۔
مذکورہ بل جس کے ذریعہ بنگلہ دیش‘ افغانستان اورپاکستان کے ہندؤں ( مسلمانوں کو اس سے دور رکھا گیا ہے)کو شہریت فراہم کی جائے گی‘ شمال مشرقی ریاستوں میں پرتشدد احتجاج کا سبب بن رہا ہے۔
آسام میں اے جی پی نے بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم کردیا ہے اور آسامی دانشوار او رسیول سوسائٹی سڑکوں پر اترگئی ہے۔ درحقیقت بی جے پی کے اراکین اسمبلی جن کا تعلق شما ل مشرق سے ہے خود اس بل کی مخالفت کررہے ہیں جو اپنی ریاست میں بنگالی بولنے والے پناہ گزینوں سے ناراض ہیں۔
بی جے پی کے شمال مشرقی اتحاد میں شامل متعدد پارٹیوں نے یونین ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ پر زوردیاہے کہ وہ بل پر آگے نہ بڑھیں۔
اگر بی جے پی چاہتے کہ وہ ملک کے سرحدی شمال مشرقی علاقے میں مضبوط ہوں تو یہ بل بی جے پی کے لئے ایک غلط اقدام ثابت ہوگا۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے شمال مشرقی کے مذہبی نسل پرستی انتہائی پیچیدہ ہے‘ او ریہ بات بھی سچ ہے کہ مشرقی پاکستان اور پھربنگلہ دیش کے تارکین وطن کی آمد کا علاقے کو سامنا درپیش ہے۔
مخالف غیر ملکی احتجاجی کی وجہہ سے ریاست میں 24مارچ1971کو آسام اکارڈ نافذ کرنا پڑاتھا‘جس کے تحت تارکین وطن کے ملک میں داخلہ کی تاریخ کو گھٹادیاگیاتھا۔
مگربل میں ترمیم میں تاریخ کو 31ڈسمبر2014تک بڑھاکر تضاد پیدا کردیاگیا ہے