ائے مسلمانو! زکوٰۃ یاد ہے، إنفاق بھول گئے؟

   

٭ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے توحید، نماز کے بعد إنفاق کا ذکر کیا ہے
٭ اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا، حقوق العباد ہی إنفاق ہے
٭ مسلمانوں کیلئے اسرائیل کے ایجوکیشن فنڈ کی تقلید کرنا وقت کی ضرورت
عرفان جابری

میرا ماننا ہے کہ آج دنیا میں موجود ہر انسان اپنی پوری زندگی اور قیامت تک آنے والی پوری انسانیت قرآن مجید پر غور و تدبر کرتے رہیں، تب بھی سب کیلئے ہم آہنگ اور مطابقت رکھنے والا قرآنی مفہوم کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ سمجھنے والوں کی سمجھ میں آتا رہے گا۔ بیشتر مسلمان اور بعض غیر بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبیوں، پیغمبروں، رسولوں کیلئے وحی پہنچانے پر مامور مقرب فرشتہ جبرئیل علیہ السلام نے زائد از 1450 سال قبل رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی پہنچائی جو سورہ علق کی ابتدائی آیتیں ہے …اقرأ باسم ربک الذی خلق…… اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی پہنچانے کی شروعات جو سورت سے کی، وہ 23 سالہ مدت میں تکمیل قرآن مجید کے بعد جملہ 114 سورتوں میں سے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائی گئی ترتیب کے مطابق 96 واں سورہ قرار پائی۔ اس سے سادہ سا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 23 سال کے دوران نزول وحی میں شروع سے آخر تک جب جب ، جتنا جتنا مناسب سمجھا، قرآن مجید کا وہ حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔ پھر جب تکمیل قرآن مجید ہوگئی تو اسے قیامت تک کیلئے مناسب ترتیب دے دی۔

اب انسانوں کیلئے قرآن مجید کی موجودہ اور قیامت تک کیلئے دی گئی ترتیب ہی حجت ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں غوروفکر (تدبر) کی سوالیہ انداز میں تاکید کی ہے (النساء ، سورہ 4، آیت 82۔ محمد، سورہ 47 ، آیت 24)۔ قرآن پر تدبر کی آج کے حالات میں شدید ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کیلئے سرچشمۂ ہدایت اور دستورِ حیات ہے۔ اس کو شروع سے پڑھنا اور غور کرنا فائدہ مند ہے۔ ایسا نہیں کہ درمیان سے کوئی آیت پڑھ لئے اور اس پر غور وفکر کرنے لگیں تو کوئی حرج ہے، لیکن جب خالق کائنات نے قرآن کو مکمل نزول کے بعد مناسب ترتیب دی ہے تو ضرور اس میں بنی نوع انسان کیلئے بھلائی کی بات ہے۔
پہلی سورت، سورہ فاتحہ کو رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرنے کے بعد دو حصوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ابتدائی تین آیتوں میں اللہ عزوجل کی تعریف و بڑائی ہے، اور بقیہ تین میں پڑھنے والا اپنے رب سے دعاگو ہے۔

دوسری سورت، سورہ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیتیںاللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے اُخروی کامیابی تک کے سفر کو گویا’’سمندر کو کوزے‘‘ میں بند کرنے کی مانند بیان کی ہیں۔ الٓمٓ۔ اس قسم کے حروف جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں، انھیں حروف مقطعات کہتے ہیں، اور مفردات حروف تہجی کی طرح الگ الگ پڑھے جاتے ہیں۔ یہ اسرارِ دین میں سے ہیں۔ ان کے معانی سے اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت و حکمت کی بنا پر عام لوگوں کو مطلع نہیں کیا۔ 2 تا 5 آیتوں کا سادہ ترجمہ یوں ہے:
اس کتاب کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے (2)۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں (3)۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں (4)۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں (5)۔

عام طور پر لوگ اور بالخصوص مسلمان یہی جانتے ہیں کہ دین اسلام کے پانچ ارکان توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج ہیں۔ تاہم، اُخروی فلاح پانے کیلئے قرآن کی ترتیب کے اعتبار سے انسان کو سب سے پہلے یقین کرنا ہوگا کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے، یہ پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔ اس کے فوری بعد تین باتوں کا ذکر ہے… غیب پر ایمان لانا یعنی سب سے پہلے خدائے واحد پر ایمان لانا (توحید)، نماز کو قائم رکھنا، اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا (یعنی إنفاق)۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم پر جو کچھ نازل کیا گیا، اور جو کچھ اُس سے پہلے اُتارا گیا، نیز آخرت پر بھی یقین رکھنے کی بات کہی ہے۔ پھر نتیجہ ظاہر کردیا کہ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سب سے پہلے توحید، نماز، انفاق کا ذکر کیا ہے۔ توحید کے بغیر ایمان نہیں، ایمان کے ساتھ ہی نماز فرض ہوجاتی ہے۔ پھر انفاق کا نمبر آرہا ہے جبکہ اسی سورہ میں زکوٰۃ ، روزہ ، حج و عمرہ کا ذکر بعد میں آیا ہے۔ إنفاق کا لفظ عام ہے، جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب استطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔
إنفاق، حقوق العباد (بندوں کے حقوق) ادا کرنے میں بھی آتا ہے، جو میرے خیال میں آج مسلمانوں میں سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا معاملہ ہے۔ بے شک! صاحب استطاعت مسلمان زکوٰۃ نکالتے ہیں لیکن وہ تو ایک سالانہ فرض کی تکمیل ہوئی۔ سال تمام کیلئے انفاق پر عمل کرتے رہنا ہے۔ یہ کہاں ہورہا ہے۔ بلاشبہ ، کئی ذی حیثیت شخصیتیں اور ادارے متعدد فلاحی و سماجی کام کررہے ہیں۔ خود میں گواہ ہوں کہ جس ادارہ سے میں زائد از دو دہائیوں سے وابستہ ہوں، وہاں کمرشیل سرگرمی کے ساتھ ساتھ ملت اور سماج کی فلاح کیلئے بھی کام ہورہے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسی شخصیتوں اور ایسے اداروں کی تعداد درکار ضرورت کے مقابل بہت کم ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ آج کل زکوٰۃ اکثر صاحب ِاستطاعت لوگ ’دیانتداری‘ سے نہیں نکالتے، اس لئے زکوٰۃ کے حقیقی مقاصد کی تکمیل نہیں ہوپارہی ہے۔ اور پھر إنفاق کو تو لوگوں نے مانو کہ فراموش کررکھا ہے۔ قرآن کی شروعات میں انفاق کا ذکر کرنا اور اللہ تعالیٰ کا اس سلسلے میں ترغیب دینا بڑی معنویت رکھتا ہے۔
آج عمومی طور پر ہندوستان اور خصوصی طور پر حیدرآباد پر نظر ڈالئے۔ عام مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟ پچھلی تین چار دہائیوں میں گلف (خلیج) کے ملکوں یا غیروں کے ممالک کو جاکر بلاشبہ اپنی معیشت بہتر بنانے والے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہوگئی ہے۔ مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس سے کئی گنا زیادہ تعداد حیدرآباد اور ہندوستان میں ایسے مسلمانوں کی ہے، جو اپنی اولاد کو فی زمانہ اقل ترین تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے (یہاں خاص طور پر یہ نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ اکثر دولتمند لوگ غریبوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ اولاد کی اچھی طرح پرورش نہیں کرسکتے تو بنا سوچے سمجھے پیدا کیوں کرتے ہو؟ طعنہ دینے والوں کو شاید اللہ تعالیٰ کی اپنی ساری مخلوق کی کفالت کرنے کی قدرت پر یقین نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی امیر آدمی یونہی اپنے آپ دولتمند نہیں بن جاتا۔ اس کی امیری میں بے شمار غریبوں کی محنت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اُس کا امیر ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور کسی غریب کا مفلس ہونا بھی اُسی خالق کائنات کی طرف سے ہے۔ چنانچہ رزاقِ حقیقی نے انسانوں میں ایک دوسرے کو کئی طرح سے معاون و مددگار بنایا ہے تاکہ سب کی زندگی چلتی رہی۔ إنفاق ایسا ہی ذریعہ ہے اور یہ زکوٰۃ کی طرح کوئی سالانہ عمل نہیں بلکہ سال تمام اور زندگی بھر کا معاملہ ہے۔
اچھائی کی تقلید کرنا ہرگز غلط نہیں، چاہے وہ کسی بھی قوم سے لی جائے۔ اس لئے آج مسلمانوں کو یہودیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ معقول مالی حیثیت کا حامل یہودی چاہے دنیا میں کہیں ہو، وہ اسرائیل میں خصوصی ایجوکیشن فنڈ میں عطیہ بھیجتا ہے۔ ہم مختلف عنوانات کیلئے فنڈز بناسکتے ہیں۔ مسلمانوں میں لگ بھگ ہمیشہ مال کے معاملے میں بھروسہ اور دیانت داری کا مسئلہ رہا ہے کہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر نہیں۔ لیکن آج ملک کے حالات دیکھئے۔ اگر اب بھی ایسے مسئلوں پر قابو نہیں پائیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں خون کے آنسو روئے گی۔٭
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com