ابو! کب گھر واپس آئیں گے، کانپور کے شہید اشرف علی کی بیٹیوں کا سوال

   

فرقہ پرست درندوں کے ہاتھوں شہید نوجوان کی بیوہ اور بچوں کی مدد ضروری
جناب زاہد علی خاں اور جناب افتخار حسین کی اپیل

حیدرآباد : لپ پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام ’’بچے کی دعا‘‘ کا یہ شعر کی گونج ہمیں اس وقت سنائی دی جب ہم نے اترپردیش کے کانپور میں شہید کئے گئے نوجوان اشرف علی کی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیوں شاذیہ، ثانیہ اور سدرہ سے فون پر بات کرنے کیلئے کال کیا اور کالرٹیون میں یہ شعر ہماری سماعت سے ٹکرایا۔ آج شہید اشرف علی کی بیٹیاں بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھائے اپنے ابو کے گھر واپس آنے کی دعائیں کررہی ہیں۔ ان بچیوں نے کہہ دیا ہیکہ وہ اپنے ابو کو چاکلیٹس، بسکٹس، آئسکریم لانے کیلئے تنگ نہیں کریں گی۔ ان سے یہ بھی نہیں کہیں گی کہ ابو ہمارے لئے کوئی میوہ ہی لائے۔ ہمیں کچھ نہیں چاہئے صرف ابو ہی چاہئے۔ ان کا پیار چاہئے، ان کی شفقت، محبت اور سروں پر ان کا سایہ چاہئے لیکن ان معصوم بچیوں کو کیا پتہ کہ ان کے ابو 34 سالہ اشرف علی کو فرقہ پرست درندوں نے صرف اس لئے اپنی کار تلے روند دیا کیونکہ انہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ پیشاب میری شاپ کے قریب نہ کرنا ذرہ دور جاکر کیجئے۔ ان معصوم بچیوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس طرح نشہ میں دھت تین درندوں نے پہلے تو اشرف علی کو شدید زدوکوب کیا اور پھر ان پر اپنی گاڑی چڑھا کر کچل دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحات میں اشرف علی کی نوجوان بیوی بیوہ ہوگئی اور تینوں بچیوں کے سر سے ان کے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ اشرف علی اترپردیش کے ضلع کانپور میں بیاٹری میکانک کا کام کرتے تھے اور محدود آمدنی کے باوجود وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ خوشحال زندگی گذار رہے تھے لیکن 4 جون کو اشرف علی کے قتل کے ساتھ ہی ان کے گھر کی خوشیاں ختم ہوگئیں۔ بیوہ 28 سالہ شبینہ کو اب بھی یقین نہیں آرہا ہیکہ وہ بیوہ ہوچکی ہے جبکہ ان کی بیٹیوں کو یہ احساس تک نہیں کہ ان کے ابو اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ قارئین آپ کو بتادیں کہ اشرف علی کی بڑی بیٹی شاذیہ (9 سالہ) چوتھی جماعت، دوسری بیٹی ثانیہ (7 سالہ) دوسری جماعت میں زیرتعلیم ہے جبکہ سب سے چھوٹی بیٹہ سدرہ کی عمر 5 سال ہے۔ کورونا وبا کے باعث اسکول میں داخلہ نہیں کرایا جاسکا۔ شبینہ بیگم کے مطابق اب ان کے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں۔ کرایہ کے گھر میں خاندان مقیم ہے۔ حکومت یا کسی تنظیم کی جانب سے تاحال کوئی امداد نہیں کی گئی ہے جبکہ تینوں بچیاں اپنے ابو کے واپس آنے کا انتظار کررہی ہیں۔ بہرحال ایک صدر خاندان کی موت خاندان کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اشرف علی کے بے رحمانہ قتل نے ہر ذی ہوش انسان کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ایڈیٹرسیاست جناب زاہد علی خان اور سکریٹری فیض عام ٹرسٹ ہمیشہ کی طرح اس خاندان کی مدد کیلئے آگے ہیں اور ہمدردانہ ملت خاص طور پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے قارئین و ناظرین سیاست اور فیض عام ٹرسٹ کے عطیہ دہندگان سے اشرف علی کی بیوہ اور بیٹیوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ اگر آپ اس مظلوم و پریشان حال خاندان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ذیل کے بینک اکاؤنٹ میں عطیات جمع کرواسکتے ہیں۔
NAME OF ACCOUNT HOLDER
SHABEENA BEGUM
ACCNT.NO.40222623276
IFSC:SBIN0008049
BRANCH CHAMANGUNJ # KANPUR