اس سے تکلیف ضرور ہوگی مگر صحت کا خیال اور آبادی کے دباؤ کے پیش نظر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے
کرونا وائرس کے معاملات میں ہندوستان کو عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کے سابق سیکھنے کی ضرور ت ہے کیونکہ جہاں پر اس طرح کے معاملات کی تعداد کافی کم تھی مگر وہ ایک ہفتے کے اندر سینکڑوں سے ہزاروں تک تجاوز کرگیا۔
چین‘ اٹلی‘ اسپین اور فرانس جیسے ممالک میں اندرون ایک ہفتہ ہزاروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔فبروی 23کے روز ایک ماہ بعد جب صوبے ہوبائی میں چین نے مکمل طور رپر امتناعات عائد کردئے تھے عالمی سطح پر 386عالمی معاملات در ج کئے گئے تھے‘
اور مارچ تک یہ 4000تازہ معاملات کی صورت اختیار کرلئے اور 13مارچ تک یہ 16000ہزار تک پہنچ گئے تھے۔
یکم مارچ کو 18فیصد سے ایک پندرہ دک تک چین کے باہر یہ 84فیصد تک پھیل گیاتھا وہیں اتوار کے روز چین میں 16نئے معاملات درج کئے گئے تھے۔
ہندوستان میں یومیہ اساس پر کچھ ہی نئے معاملات ہیں‘ حالانکہ جانچ پر تحدیدات کا رحجان ہے مگر ہمیں 100کے نشان کونئے معاملات نے پار کرادیا ہے۔
اسپین سے سبق حاصل کریں‘ 7مارچ کے روز 124یومیہ اساس پر معاملے سے ملک نے 13مارچ تک یومیہ اساس پر 2086تازہ معاملات درج کئے ہیں
۔ دیگر جیسے اٹلی او رفرانس میں بھی دھیمی تیزی ائی ہے کہ اگر اس کو ڈرامائی انداز میں نہیں لیاگیا۔
بوتل سے باہر نکلے ہوئے جن کوہرروز سینکڑوں سے ہزاروں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے قبل ازوقت تحدیدات کا نفاذ ضروری ہے۔
اس عمل کو کرتے ہوئے مروت کا کوئی بھی راستہ نہیں اختیار کیاجانا چاہئے۔ سیاسی قائدین کو چاہلے وہ بڑے بڑے جلسوں کو رد کریں اور کچھ وقت کے لئے سڑکوں کو سیاسی رنگ دینا بند کردیں۔
کرناٹک چیف منسٹر بی ایس یداراپا کی سماجی دوری کے اقدامات کو نافذ کرنے پر ستائش کی جارہی تھی پھر انہوں نے 3000لوگوں پر مشتمل ایک عالیشان شادی میں شرکت کی جو قابل افسوس عمل رہا ہے۔
آپ جو عمل کرتے ہیں اس کی تشہیر اور ایسے معاملات میں ضروری ہوتی ہے‘ وہیں اصولوں سے استثناء تباہ کن بات بن جاتی ہے۔
تعلیمی اداروں اور سنیما گھروں کوبند کردینے کے لئے کہاگیا ہے اور یہ اقدام درست ہے۔
مگر چند مذہبی اجتماعات کو اس سے مستثنیٰ رکھاگیا ہے۔
نوراتری قریب ہے اور انتظامیہ اس کو مستثنیٰ قراردینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایودھیا کے رام نومی میلا کے لئے ضلع انتظامیہ نے وعدہ کیاہے کہ وہ”آنے والے بھکتوں کے لئے صحت عامہ کے تمام درکار اقدامات اٹھائے گا“۔
ایسے بیوروکریٹس عقیدت مندوں کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور ساتھ میں دوسرے بھی اس کی زد میں ائیں گے۔
چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے جس کاسیاسی رنگ”ہندو نسل“ ہے جو اس مقبول تعمیل کو یقینی بناسکتے ہیں۔
امتناعات او رتحدیدات یقینا ہماری مصروف ترین زندگی پر ایک کارضرب ثابت ہوں گے مگر موقع کی نزاکت او ر وقت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ اس پر عمل کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو ایک نئی مصیبت کو ہم دعوت دینے کی تیاری کریں گے۔
جس غفلت اور تاخیر کا خمیازہ چین کے بعد آج اٹلی‘ ایران‘ اسپین او ریوروپ کے دیگر مقامات بھگت رہے ہیں