نئی دہلی۔ دہلی کی قدیم مارکٹ کی تنگ گلیوں میں‘ جامعہ مسجد کی گنبدوں کے سایہ میں صبح نو بجے سے کاروبار شروع ہوجاتا ہے۔
یہ ہفتہ کسی دوسری ہفتہ کے معمول کی طرح نہیں تھا خاکی لباس میں کئی جوان متعین تھے‘ ہر کوئی جانتا ہے وہ کس لئے معین تھے۔
ایک مقامی جس نے نام ظاہر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ ”یہ (ایودھیاکا فیصلہ) ایک حساس مسئلہ ہے۔ مگر ہمیں ہماری روزہ مرہ کی زندگی کی فکر ہے“۔
او ر وہ ایسا کررہے ہیں۔ حاجی میاں نے اپنی ہوٹل9بجے صبح کھولی۔
صبح کے گاہکوں کا استقبال کرنے کے لئے ان کا عملہ تیار تھا۔ طارق حسن نے اپنی ٹرویل ایجنسی ادھا گھنٹہ تاخیر سے کھولی انہیں توقع تھی کہ آج کا کلکشن روز کی طرح ہوگا’جو بھی مل جائے ٹھیک ہے۔
ایک شخص جوہوٹل کے پاس کھڑا تھا جہاں پر نہاری پایا سربراہ کیاجاتا ہے اس کو دن میں ائی تبدیلی میں کوئی دلچسپی نہیں دیکھائی دے رہی تھی۔
انہوں نے استفسار کیاکہ ”یہاں پر کوئی تناؤ نہیں ہے۔زیادہ تر اس لئے کیونکہ یہ کئی وقت سے جاری ہے۔
اس سے زیادہ کیاکہاجاسکتا ہے؟“۔ بعدازاں مذکورہ شخص اپنی عملے کی طرف راغب ہوکر باہر جانے والے ارڈر کے متعلق جانکاری حاصل کی۔
کئی لوگ مجموعی طور پر فیصلے کے متعلق بات کرنے میں کوئی دلچسپی دیکھاتے نظر نہیں ائے‘ چلتے ہوئے شائستہ انداز میں ہاتھ ہلاکر بات کرنے سے انکار کردیا
۔پولیس نے موٹرسیکل پر گشت لگانے کاکام کیااور وہاں میدان پر دوزائد پولیس کی کمپنیاں بھی موجود تھیں۔ پولیس پوسٹ کے اندر کچھ پولیس والوں کے ہاتھ میں والکی ٹاکی تھے۔
انسپکٹر کرن سنگھ بالکونی میں کھڑے ہوکر جامع مسجد کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ”یہاں پر اب تک کوئی کشیدگی نہیں ہے۔
ہم نے اپنے لوگوں سے کہہ دیا ہے گشت نہ کریں او رچوکنا رہیں“۔ جامعہ مسجد کے باہر میڈیا کے نمائندے لوگوں سے تاثرات حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دیکھائی دئے۔
ایک مقامی شخص محمد اسلم نے کہاکہ ”ملک کی بھلائی کے لئے امن اہمیت کاحامل ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا ہوگا“۔
جامعہ مسجد پر داخلہ ٹکٹوں کی نگرانی کرنے والے شخص نے کہاکہ لوگوں میں کوئی کمی نہیں ہے آیاوہ ٹورسٹ ہوں یاعقیدت مند یومیہ اساس کی طرح کا حال ہے۔
ٹورسٹ گائیڈ وہرا کے ساتھ اٹھ آسٹریلیائی لو گ تھے۔ انہو ں نے کہاکہ ”میں نے انہیں زیر التوا فیصلے کے متعلق جانکاری دی۔ پولیس سے ہمیں کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی تھی
۔ مگر اس کے بعد بھی میں خوف پھیلانے کے کھیل میں شامل نہیں ہوا تھا“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں وہاں جہاں پررام پیدا ہوئے ایک مندر دیکھنا چاہارہا تھا اورمسلمان وہاں پرمسجد مگر اسپتال تعمیرکردیاجاتا تو سب سے بہتر ہوتا“۔
ٹرویل ایجنٹ طارق خان حقیقت میں فیصلہ پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے آیاانہوں نے کہاکہ ”جو کچھ بھی ہوا وہ ہوگیا۔ مگر اب ہمیں مستقبل کے متعلق بات کرنا ہے۔
امید ہے یہ اس کا اختتام ہوگا“