ایک خصوصی اپریشنس ٹیم کے ساتھ پولیس اور گاؤں والوں کے مظاہروں کے باوجود عبدال کو اٹھاکر لے گئی۔
اترپردیش میں ایک ایسا گھر میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں پر بیٹی کی شادی کی تیاریاں کی جارہی تھی۔ایک 53سالہ مسلم عورت جس کا نام روشنی بتایاگیا ہے کو پولیس نے اس وقت گولی مار دی جب وہ مبینہ گاؤ ذبیحہ کے معاملے میں اپنے بیٹے کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کررہی تھیں۔
رپورٹرس سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے محمد فاروق نے کہاکہ 15-20پولیس عہدیدار ان کے گھر میں رات میں داخل ہوئے اور ان کے بھائی عبدالرحمن کے متعلق بغیر کسی وجہہ کے استفسار کیا۔
بہن رابعہ کی شادی میں شرکت کے لئے 9مئی کے روز عبدال ممبئی سے رائے ہے جو 22مئی کو مقرر ہے۔جب عبدال ہے تو پولیس نے اس کو پکڑا اور لے کر چلی گئی۔فاروق نے کہاکہ ”جیسے ہی یہ معاملہ میری والدہ نے دیکھا جو وہیں پر کھڑی تھیں دوڑنا شروع کیا۔
انہوں نے عبدال کاہاتھ پکڑا او رپولیس سے پوچھا کہ ان کے بیٹے کو کیوں لے کر جارہے ہو۔ وہ مسلسل اس کو چھوڑ نے کی بات پولیس سے کررہی تھیں“۔
روتے ہوئے فاروق نے الزام لگایاکہ”پولیس نے انہیں دھمکایاکہ اگر وہ نہیں گئے تو انہیں گولی ماردی جائے گی۔ او رپھر ان پر گولی چلا دی گئی“۔ گولی مارنے کے بعد برہم گاؤں والے باہر ائے او رشدید احتجاج کیا۔
پولیس ایک اسپیشل اپریشن گروپ کے ساتھ عبدال کوعجلت میں اٹھانے کے لئے ائی تھی۔ روشنی فائرینگ میں شدید طور پر زخمی ہوئیں اور موقع پر ہی فوت ہوگئیں۔ نعش کو بیٹوں نے اسپتال کو لے کر گئے جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیاگیا۔
اتوار کے روز سدھارتھ نگر پولیس نے ایک ایف ائی آر قتل کے دفعات کے تحت نامعلوم پولیس والوں کے خلاف درج کی ہے
۔انڈین ایکسپریس ے بات کرتے ہوئے سدھارتھ نگر سرکل افیسر نے کہاکہ ”متوفی کے جسم پر گولی لگنے وجہہ سے ہونے والے چھید کے نشان ہیں۔ میں پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھنا چاہوں گا“۔