اترپردیش میں نوجوانوں کی پانچ سالہ کنٹراکٹ بھرتی کا منصوبہ

   

روش کمار
اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر اس پر وسیع تر مباحث ہونے چاہئے۔ اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق اترپردیش کے محکمہ پرسونل نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ گروپ B اور C کی بھرتیاں 5 سال کنٹراکٹ کی بنیاد پر ہوں گی اور جن لوگوں کا کنٹراکٹ کی بنیاد پر تقرر عمل میں آئے گا اگر ان 5 برسوں کے دوران خدمات ترک نہیں کریں گے تب ہی انہیں مستقل کیا جائے گا ورنہ نہیں۔ اس مدت کے دوران کنٹراکٹ ملازمین کو مستقل خدمات کے حامل ملازمین کو ملنے والے فوائد بھی حاصل نہیں ہوں گے۔ اترپردیش کے محکمہ پرسونل کی یہ تجویز ان کروڑوں نوجوانوں کے خوابوں کو چکنا چور کردے گی جن کا سوچنا اور ماننا یہ ہیکہ حکومت انہیں مستقل ملازمت فراہم کرے گی اور ان کی زندگی میں اس طرح کی سرکاری ملازمتوں سے سیفٹی کا ایک نیا دور آئے گا۔
ایک چھوٹی سی نجی کمپنی بھی تین ماہ کی خدمات کے بعد ملازمین کو مستقل کردیتی ہیں جبکہ حکومت 5 سال تک ملازمین کو کنٹراکٹ کی بنیاد پر رکھتے ہوئے ان کی خدمات سے استفادہ کرے گی حیرت کی بات ہے۔ اگر آپ اس مسئلہ پر وسیع تر مباحث کرنا چاہتے ہیں تو سخت محنت کیجئے اور یہ دیکھئے کہ کونسی ریاستوں میں اس نظام پر عمل آوری کی گئی اور کن ریاستوں میں اس پر عمل آوری کی تجویز ہے۔

گجرات میں نریندر مودی نے اس نظام پر عمل آوری کر وائی اسے Fix pay system کہا جاتا ہے اور لوگ اس Fix Pay System کے تحت کئی برسوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس نظام کا پولیس سے لے کر اساتذہ کی بھرتیوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک تو اس نظام کے تحت جن نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ان کی جو تنخواہیں ایک بار مقرر کردی جاتی ہیں 5 سال کے دوران اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوتا اور دوسرے یہ کہ ان کی خدمات بھی مستقل نہیں کی جاتیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نظام کے تحت 4 لاکھ ملازمین کی بھرتیاں کی گئیں اور یہ ملازمین تنخواہوں میں بنا کسی اضافے کے 14 برسوں سے کام کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی تنخواہوں میں معمولی سا اضافہ کیا گیا لیکن یہ اضافہ مستقل خدمت کے مساوی نہیں ہوسکتا۔ ان حالات میں گجرات میں ہی اس طرح کے کنٹراکٹ ملازمین نے جو فکس پے سسٹم کے تحت کام کررہے ہیں گجرات ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست داخل کی۔ جس پر 2012 میں گجرات ہائی کورٹ نے فکس پے سسٹم کو غیر قانونی قرار دیا۔ گجرات ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ان کنٹراکٹ ملازمین کو بھی مستقل خدمات کے حامل ملازمین کی طرح مساوی تنخواہیں دی جانی چاہئیں اور ان کی خدمات کو بھی مستقل کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں آپ کو دوسری ریاستوں میں کچھ مثالیں ملیں یا نہ ملیں لیکن یقینا یہ انتہائی کم تنخواہوں پر کئی برسوں سے کام کررہے 4 لاکھ افراد کا ایک سیاسی سروے ہوسکتا ہے۔ آپ اس سروے کے ذریعہ پائیں گے کہ ان ملازمین کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے۔ اگر وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق بھی رکھتے ہیں یا اس کے وفادار بھی ہیں تو ان کی سیاسی وفاداری بھی اس معاشی استحصال کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ آپ کو بتادیں کہ سیاسی وفاداری کچھ اور چیزوں سے بنتی ہے۔ بہرحال گجرات کے ان کنٹراکٹ ملازمین کا مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا۔ گجرات حکومت نے چیالنج کیا کہ اس وقت چیف منسٹر نریندر مودی تھے تب سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے کہا کہ اگر آپ ان کنٹراکٹ ملازمین کو مستقل ملازمین کے مطابق تنخواہیں نہیں دے سکتے تو پھر خود کے دیوالیہ رپورٹ ہونے کا اعلان کریں۔ اس فیصلہ سے متعلق قبل 7 دسمبر 2016 کو احمد آباد دی میرر میں شائع ہوئی اور اب مودی وزیر اعظم بن گئے۔ اس وقت عدالت میں چونکہ حکومت گجرات کے سالیسٹر جنرل نے کہا تھا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان کنٹراکٹ ملازمین کو مستقل ملازمین کے مساوی تنخواہیں دی جاتی ہیں تو پھر اس کے لئے ریاستی حکومت کو 8 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے کیونکہ ریاست میں فکس پے سسٹم کے تحت 4 لاکھ ملازمین کا تقرر کیا گیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام ملازمین سے ایک حلف نامہ حاصل کیا گیا جس میں ان لوگوں نے خود لکھا ہے کہ وہ فکس پے سسٹم کے تحت کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملہ پر ناراض ہوگئی اور عدالت نے گجرات ماڈل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی رول نہیں ہے سوائے ایک کانسٹبل کے اور ایک لوکیٹر کا تقرر کیا گیا اور نئے عہدوںکو فکس پے سسٹم کے تحت رکھا گیا۔ میں نہیں جانتا کہ آیا حکومت گجرات 8 ہزار کروڑ روپے دیئے یا نہیں، آیا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل آوری کی گئی یا نہیں۔ تاہم آئی ٹی سیل اس کا صرف 2 منٹ میں پتہ لگاسکتا ہے، اس سے کہہ کر دیکھیں۔ اگر دیکھا جائے تو گجرات میں فکس پے سسٹم کے تحت 4 لاکھ کنٹراکٹ ملازمین کا تقرر کرتے ہوئے حکومت گجرات نے 8 ہزار کروڑ روپے کی بچت کی۔ آپ اسے کوئی خراب سسٹم کہہ سکتے ہیں میں بھی یہی کہوں گا لیکن پھر بھی اس پر بی جے پی کو سیاسی نقصان نہیں ہوا۔ مودی کی مقبولیت نوجوانوں میں آج بھی برقرار ہے۔ ایسے میں آپ کسی وہم میں مبتلا نہ رہیں کہ اترپردیش کی مبینہ تجویز سے بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئے گی یا اس کی مقبولیت گھٹ جائے گی بلکہ اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

اساتذہ کی خدمات مستقل نہیں ہیں۔ ہنوز وہ کنٹراکٹ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں لیکن تنخواہوں میں کچھ اضافے کے بارے میں زبردست تشہیر کی گئی۔ اب آپ کہیں گے کہ پھر وہ حکمراں جماعت کو ووٹ دیں گے؟ یہی دہلی کی سوچ ہے۔ ان اساتذہ میں سروے کیجئے جو کہتے ہیں کہ وہ تین یا چار لاکھ ہیں، آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ حکمراں جماعت کی تائید کریں گے۔

اپوزیشن اس خبر سے بہت خوش دکھائی دیتی ہے کہ نوجوانوں کو مستقل ملازمتیں نہیں دی جائیں گی ایسے میں انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر یہ تحریک مستحکم ہوتی ہے تو یہ خبر کہیں دکھائی نہیں دے گی کہ 5 سالہ کنٹراکٹ کی بنیاد پر نوجوانوں کی بھرتی کا منصوبہ ہے۔ اخبارات میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنی عوام پر بھروسہ ہے کیوں نہ ہو کیونکہ حکومت کا ہر فیصلہ عوام نے قبول کیا ہے۔ میں ہمیشہ اپوزیشن سے یہی کہتا ہوں کہ آپ روزگار سے متعلق سوال کرنے سے دور رہیں کیونکہ نوجوان اپوزیشن کی کسی بھی کاز کی تائید کرنا نہیں چاہتا۔ اگر حکومت کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے پروگرام کو یوٹیوب پر ناپسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑی ہے تو پھر راہول گاندھی کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ نوجوانوں نے روزگار کے لئے چلائی جارہی کسی بھی مہم سے خود کو جان بوجھ کر دور رکھا ہے کیونکہ وہ صرف اپنی وفاداری کو مقدس مانتے ہیں۔ نوجوانوں نے خود کو راہول گاندھی، پرینکا گاندھی، اکھلیش یادو، تیجسوی یادو اور منوج جھا جیسے نوجوان لیڈروں کے ٹوئٹ سے بھی دور رکھا ہے۔ اس لئے اپوزیشن کو روزگار کی تحریکوں سے خود کو دور رکھنا چاہئے یا اپنا ماڈل بتانا چاہئے۔ اپنی ریاستوں میں دیکھئے حقیقت کے باوجود کوئی بھی نوجوان شخص اپوزیشن کو نہیں سنے گا یہی حقیقت ہے۔ میں اپنا تین سالہ تجربہ بیان کرتا ہوں اس مسئلہ پر مسلسل لکھا ہوں اور یہی کہتا ہوں کہ روزگار کا سوال میرا امتحان بہ مقابلہ اس کا امتحان کا نتیجہ نہیں ہے۔ آپ کچھ بھی لکھ لیں نوجوان پڑھیں گے لیکن سنیں گے نہیں۔