اترپردیش میں پھر جنونی تشدد

   

یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے
وہ مہربان ہے لیکن دشمن جاں ہی لگے
اترپردیش میں پھر جنونی تشدد
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ایک بار پھر سے حالات کو بگاڑنے کی کوشش شروع ہوچکی ہے ۔ ویسے بھی اترپردیش کے ماحول کو فرقہ پرستی کی حدوں تک پہونچا دیا گیا ہے ۔ وہاں لوگ سماجی ہم آہنگی کی بجائے فرقہ وارانہ تعصب کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ حالانکہ ایسا کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ماحول کو ضرور پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ مر میں بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی یہاں حالات کو بگاڑنے کی کوششیں شروع ہوچکی تھیں۔ سب سے پہلے بیف کے مسئلہ پر محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کا واقعہ بھی اترپردیش میں ہی پیش آیا تھا ۔ ہجومی تشددکے ایک سے زائد واقعات بھی اترپردیش میں پیش آئے ہیں۔ اترپردیش میںانتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کی جانبدارانہ روش ایسا کرنے والوں کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنتی رہی ہے ۔ وہاں جو واقعات پیش آئے ہیں ان میں ملزمین سے زیادہ سخت کارروائی متاثرین کے خلاف کی گئی ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ملزمین کے خلاف عدالت سے کوئی احکام جاری نہ ہونے پائیں۔ تقریبا ہر کیس میں متاثرین کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ فرقہ پرست عناصر اترپردیش کی یوگی حکومت میں آزاد محسوس کر رہے ہیں اور وہ ملک کے قانون اور دستور کے خلاف بھی حرکات سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ اب تازہ ترین واقعہ میں ایک اور غریب مسلم مزدور نوجوان کو چند جنونی فرقہ پرستوں نے ایک پیڑ سے باندھ کر شدید زد و کوب کیا اور اسے متنازعہ مذہبی نعرہ لگانے پر مجبور کردیا گیا ۔ سب سے پہلے تو یہ انتہائی غیر قانونی اور غیر آئینی حرکت ہے ۔ کسی کو بھی ایسی ظالمانہ اور جنونی حرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس کے علاوہ مذہبی نقطہ نظر سے بھی یہ انتہائی مذموم عمل ہے کیونکہ کسی کو بھی مجبور کرتے ہوئے پیڑ سے باندھ کر نعرہ لگوانا کوئی بہادری کا کام نہیں بلکہ یہ بزدلی اور نا اہلی کی مثال ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے ۔ اترپردیش کے انتظامیہ اور پولیس کو ایسے واقعات کا تدارک کرنا چاہئے ۔
اترپردیش میں جس طرح کی حکومت چلائی جا رہی ہے وہ قانون کی خلاف ورزیوں پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے ۔ یہاں جتنے بھی مسلم مخالف واقعات پیش آئے ہیں اور جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے ان سب میں اترپردیش کی پولیس نے انتہائی جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے ۔ فرقہ وارانہ تعصب سے کام کیا ہے یا پھر حکومت کے اشاروں پر ایسی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ ہر معاملے میں متاثرہ شخص کو بھی مقدمات میں پھانسا گیا ہے اور حملہ آوروں اور قتل کردینے والوں کے خلاف انتہائی کمزور تحقیقات کرتے ہوئے ان میں جھول چھوڑی گئی ہے تاکہ انہیں عدالتوں سے سزائیں نہ سنائی جاسکیں۔ پولیس اور انتظامیہ کی اس جانبدارانہ اور غیر ذمہ دارانہ کارروائی کے نتیجہ میں حملہ آوروں کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت اپنی خاموشی کے ذریعہ ان حرکتوں کی بالواسطہ تائید کی مثال قائم کرتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات ریاست میں تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ سیاسی فائدہ ایسے واقعات کا اصل مقصد ہوتا ہے اور اب جبکہ ملک کی چند ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اور پھر اندرون ایک سال ملک میں عام انتخابات کے پیش نظر اس طرح کے واقعات کا تدارک کرنا حکومتوں اور پولیس کی اولین ذمہ داری ہے تاہم بی جے پی حکومتوں سے ایسے واقعات کے تدارک کی امید کرنا فضول ہی ہوسکتا ہے کیونکہ وہی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔
پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں جس طرح سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات سے نمٹ رہی ہیں اس سے ان کی پیشہ ورانہ دیانت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سیاسی وابستگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا پولیس فورس یا تحقیقاتی ایجنسیوں کیلئے ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح سے مجرمین اور ملزمین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور سماجی امن اور سکون چین درہم برہم ہوسکتا ہے ۔ ایسے واقعات میں متاثرین کو بھی عدالتوں سے مستحکم انداز میں پیروی کرتے ہوئے حملہ آوروں کو سزائیں دلانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ صرف پولیس پر انحصار کرنے سے ملزمین کا قانون سے خوف ختم ہوتا جا رہا ہے ۔