سیاسی شائستگی ہمیشہ متوقع ہے‘ بالخصوص جب معاملہ مذہب‘ نسل‘ طبقہ وغیرہ کا رہے۔ اس سے زیادہ کسی بھی ملک کی برسراقتدار پارٹی کے لئے بھی یہ لاگو ہوتا ہے۔ تاہم ان تمام حدود اس وقت پار ہوگئے جب بی جے پی کے گجرات یونٹ نے داڑھے والے مسلمان مردوں کی سولی پر لٹکی ہوئی تصویر پر مشتمل نہایت جارحانہ خاکہ جاری کیا ہے۔
مذکورہ خاکہ احمد آباد عدالت کی جانب سے 49(مسلمان) اشخاص کو احمد آباد سلسلہ وار بم دھماکوں معاملہ 2008میں سزائے موت اور عمر قید کی سزاء سنائے جانے کے معاملے میں ردعمل کے طور پر پیش کیاگیاتھا۔
دیگر 28 ملزمین کو بری بھی کردیا گیاہے۔وہیں دہشت گردی کی مذمت ایک الگ بات ہے اور صحیح انداز میں اس کی مذمت کی جانی بھی چاہئے‘ ایک ایسا خاکہ پیش کرنا جس کے ذریعہ ساری مذہبی کمیونٹی کو دہشت گرد ثابت کرنا بڑا ہی افسوسناک کام ہے۔
درحقیقت اس سے زیادہ خراب گجرات جیسی ایک ریاست سے بھی متوقع ہے جہاں پر مسلمان بڑے پیمانے پر ظلم وزیادتیوں کا شکار ہیں۔تاہم اس طرح کاکام برسراقتدار بی جے پی کے اپنے سوشیل میڈیا ہینڈلوں سے بھی کیاگیا ہے جس میں دیکھاجاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مخالف مسلمان نفرت ایک معمول بن گیا ہے‘ ویسا ہی جیسا نازی جرمنی میں یہودیوں کے خلاف کیاگیاتھا۔
جیسے ہی یہ خاکہ منظرعام پر آیا نٹیزنس نے حیرت کا اظہار کیا اور کئی نے ٹوئٹر او رانسٹاگرام سے اس کی شکایت بھی کی۔ زیادہ دلچسپ بات تو یہ رہی کہ نازی جرمنی جو ہٹلر کی قیادت میں تھا اس وقت کا ایک دہلادینا والا خاکہ بھی منظرعام پر آیاہے‘ جس کا تقابل بی جے پی کے اسی خاکے سے کیاجارہا ہے۔
دونوں مماثلت آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں پر حقیقی تصویر ہے۔ مذکورہ خاکہ کو اس کے بعد ہٹابھی دیاگیاہے۔
اس سارے معاملے کا مطلب کیاہے؟اس طرح کے خاکے موجودہ عصبیت کو آگے لے جائیں گے یا معمول پر لائیں گے کو اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے کہ سارے مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔
اس حقیقت کو چھوڑ کر کے موجود ہ ہندوستان میں مسلمان لڑکیوں کو ان کے اسکارف استعمال کرنے کے ائینی حق پر حملہ کیاجارہا ہے۔
وہ بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کیاجارہا ہے جو مسلمان لڑکیوں او رجوان عورتوں کی زندگیاں کرناٹک میں مشکل بنائی جارہی ہیں۔
اس ملک میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلا نا بہت آسان کام ہے کیونکہ فرقہ وارانہ تشدد کی بدقسمت تاریخ یہاں پر پہلے سے موجود ہے۔تاریخ حکمرانوں کے خیال کے مطابق مہربان ہوگی یہ ممکن نہیں ہے۔