احکامات الہیہ کی پابندی کامیابی کی ضمانت

   

مولانا حبیب عبدالرحمن الحامد
اﷲ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں سب کچھ ہے ، وہی ہے جو ظالم حکمرانوں کو ختم کرسکتا ہے ،تغیرزمانہ تو ہرحال میں آتا اور جاتا رہے گا ہمارا اپنا کام یہ ہے کہ اﷲ کے احکامات پر عمل کریں اور زندگی گذاریں۔ اﷲ رب العزت نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر تکلیف کے بعد راحت ہے ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے زندگی کیسے گذاری ۔ آپ ﷺمکہ معظمہ میں پیدا ہوئے،اہل مکہ آپ کو امین اور صادق کے لقب سے بلاتے ۔لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا یاکرتے اور وہ جب طلب کرتے تو حضور اکرم ﷺ اُن کا مال اُن کے حوالے کردیتے ۔جب آپ ﷺتاج نبوت سے سرفراز کئے گئے تو وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین کے لقب سے بلاتے تھے آپؐ کے جانی دشمن بن گئے سوائے چند حضرات کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ۔ ظلم اور ستم کی یہ آندھی چلتی رہی تو مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم ملا بعد میں اﷲ کے حکم سے خود حضور اکرم ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت کئے تو اصحاب بھی مدینہ آگئے ۔ مدنی زندگی کے یہ دس سال بھی بڑے آزمائشی رہے جس میں آپ ﷺنے بہ نفس نفیس ۲۷ غزوات میں حصہ لیا۔ غزوہ وہ جنگ ہے جس میں خود حضور اکرم ﷺتشریف لے جاتے اور ۶۰ (ساٹھ ) سرایہ جس میں مجاہدین اسلام کو روانہ فرمایا اس کے بعد امن و امان کا یہ حال ہوگیا کہ ایک اکیلی عورت بھی اگر سونا لے جارہی ہو تو کوئی ڈر اور خوف پیدا نہیں ہوتا ۔ ۱۲ ؍ صفر ۲ ہجری کو احکامات خداوندی آیا کہ ظلم سہنے کی ضرورت نہیں ، تم اُن سے لڑو جو تم سے لڑنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ مقابلہ ہوتا رہا ۔ غزوۂ بدر قائم ہوئی ۔ نہتے مسلمانوں نے ایک ہزار کے لشکر کو بچھاڑ دیااور کامیابی حاصل کی ۔ پھر کیا تھا مسلمانوں کا دبدبہ قائم ہوگیا ۔ پھر غزوۂ اُحد واقع ہوئی ۔ تھوڑی سی عدول حکمی کی سزا ملی لیکن کفار فتح یاب نہ ہوسکے ۔ مسلمانوں نے بڑھ کر پیچھا کیا اور ابوسفیان کو بھاگنا پڑا ۔ ۵ ہجری میں غزوۂ خندق واقع ہوئی جس میں تمام قبائل جمع ہوکر مدینہ پر حملہ کردیئے جس میں خیبر کے یہودی بنوغطفان کے لٹیرے ، مکہ کے کافر سب جمع تھے لیکن خندق کھودکر ڈٹ کرمقابلہ کیا گیا تو اﷲ کی نصرت آئی اوراﷲ نے کامیابیوں سے نوازا ۔ پھر ایک انقلاب آیا جو صلح حدیبیہ کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو یہ معاہدہ کمزوری کے تحت لکھا گیا محسوس ہورہا تھا لیکن سورۂ فتح کے نزول پر اﷲ کے رسول ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عمرؓ کو سنایا اور بشارت دی کہ یہ فتح مبین ہے ۔ اس کے بعد دیکھنے والی نگاہوں نے دیکھا کہ لوگ مسلمانوں کے اعمال دیکھ کر کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا ، مسلمان چوری نہیں کرتا ، مسلمان شراب نہیں پیتا ، مسلمان دغا نہیں کرتا اور ایسے ہی بہت سارے اوصاف جب اُن کے سامنے آنے لگے تو لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے اور یہ صلح فتح مبین ثابت ہوئی ۔ اس کے بعد اﷲ کے رسول ﷺ فتح مکہ کیلئے نکلتے ہیں اور دس ہزار مجاہدین ساتھ ہیں۔ ۶چھ ہجری کو جو صلح حدیبیہ ہوئی تھی شرکاء کی تعداد ۱۴۰۰ (چودہ سو )تھی ۔ حالات پلٹی کھارہے تھے اور مسلمان کامیابیوں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ اس کے بعد غزوہ حنین اور تبوک واقع ہوئیں جن میں دشمن مقابلے کیلئے نہ آسکا ۔ حالانکہ وہ اس زمانے کا سوپر پاور ملک تھا ۔ اس طرح اﷲ کا وعدہ ہر غم کے بعد خوشی ہے ، ہر اندھیرے کے بعد اُجالا ہے ، سامنے آیا ۔
ایسے پرآشوب حالات میں جب ہندوستانی مسلمانوں کو نئے نئے قوانین کے ذریعہ پریشان کیا جارہا ہے تو اُنھیں چاہئے کہ اﷲ رب العزت کے احکامات کی مکمل طورپر پابندی کریں ۔ ظلم اور زیادتی سے بچے رہیں ، نہ ظلم کرے اور نہ اس کو برداشت کرے تو یقین جانئے گا کامیابی آپ کی منتظر ہے اور مسلمان ہی کامیاب رہیں گےاور یہ ظلم کی آندھیاں ان شاء اﷲ خود بہ خود ختم ہوجائیں گی ۔