ارم منزل کے انہدام کے خلاف عدالت کا فیصلہ

,

   

ہیرٹیج عمارت کا تحفظ کیا جائے، چیف جسٹس راگھویندر چوہان اور جسٹس شمیم اختر کے احکام

حیدرآباد۔ 16 ۔ ستمبر (سیاست نیوز) ارم منزل کی تاریخی عمارت کو منہدم کرتے ہوئے اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کرنے سے متعلق ٹی آر ایس حکومت کے منصوبہ کو آج اس وقت جھٹکہ لگا جب تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ارم منزل جو ہیرٹیج عمارت ہے ، اسے منہدم نہ کریں۔ عدالت نے ارم منزل کے انہدام اور نئی اسمبلی کی تعمیر سے متعلق ریاستی کابینہ میں منظورہ قرارداد اور کابینہ کے فیصلے کو کالعدم کردیا۔ چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس شمیم اختر پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔ مفاد عامہ کے تحت درخواستوں میں حکومت کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا ۔ ہائی کورٹ نے 7 اگست کو اس مقدمہ کے فیصلہ کو محفوظ کردیا تھا جو آج سنایا گیا ۔ ڈیویژن بنچ نے درخواست گزاروں کے اس استدلال سے اتفاق کیا کہ ارم منزل ایک ہیرٹیج عمارت ہے اور اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔ ایک درخواست گزار کے وکیل سی پربھاکر نے کہا کہ انہوں نے نئی اسمبلی کی عمارت کی تعمیر کے خلاف عدالت میں بحث کرتے ہوئے استدلال پیش کیا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی عمارت کافی ہے اور نئی عمارت کی تعمیر سے عوامی رقومات کا زیاں ہوگا۔ حکومت نے استدلال پیش کیا کہ ارم منزل ہیرٹیج عمارتوںکی فہرست سے خارج کردی گئی ہے اور تلنگانہ ریاست کو اسمبلی کی نئی عمارت کی ضرورت ہے۔ ہیرٹیج عمارتوں کے تحفظ کے جہدکاروں کے علاوہ نواب فخرالملک کے وارثین نے درخواستیں داخل کی تھیں۔ عدالت نے ارم منزل کے انہدام اور نئی اسمبلی کی تعمیر سے متعلق کابینہ کے فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا۔ عدالت نے موجودہ اسمبلی اور ارم منزل کی عمارتوں کو منہدم نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کی جارہی ہے۔ تاہم کے سی آر نے دونوں عمارتوںکی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد رکھا۔ سابق ریاست حیدرآباد کی نامور شخصیت نواب فخرالملک نے تقریباً 150 سال قبل یہ خاندانی محل تعمیر کیا تھا۔ چیف منسٹر نے 27 جون کو نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جو 100 کروڑ روپئے کے صرفہ سے تعمیر کی جائے گی ۔ عدالت کے فیصلہ سے ہیرٹیج کے جہد کاروں اور اپوزیشن جماعتوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ تاہم حکومت نے عدالت کے فیصلہ پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ میں اس فیصلہ کو چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔