ارون جیٹلی : جمہوریت پسند، بردبار شخصیت

   

راج دیپ سردیسائی
ارونجیٹلی کے تعلق سے یادوں کا سلسلہ جاری ہے جسے دوستوں اور شناسائی رکھنے والے لوگوں کا وسیع حلقہ اپنی باتیں پیش کررہا ہے۔ اس درمیان آنجہانی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) لیڈر سے میری ایک یادگار ملاقات کو پیش کررہا ہوں۔ میں نے نومبر 2014ء میں جیٹلی اور ایک دیگر وکیل و سیاستداں پی چدمبرم کو میری 2014ء الیکشن بک کی رسم اجرائی کیلئے مدعو کیا تھا۔ دونوں نے اتفاق کیا لیکن لانچ سے محض 48 گھنٹے قبل مجھے قدرے مضطرب جیٹلی کا فون کال وصول ہوا۔ انھوں نے دریافت کیا: ’’بعض بی جے پی حامیوں نے مجھے فون کرکے مشورہ دیا ہے کہ (رسم اجرائی تقریب میں) شرکت نہ کروں۔ کیا آپ نے وزیراعظم مودی کے تعلق سے کچھ بھی متنازعہ لکھا ہے؟‘‘ میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں، ’’سر، یہ 2014 الیکشن کا منصفانہ اور دیانت دارانہ خاکہ ہے۔ علاوہ ازیں، میں نہیں سمجھتا کہ جو آپ کو مشورہ دے رہے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے۔‘‘ جیٹلی نے قہقہہ لگایا، ’’ہاں، ہم سیاستداں عام طور پر (وہ) کتابیں نہیں پڑھتے جن پر ہم امتناع کا مطالبہ کردیتے ہیں! فکر نہ کیجئے، میں تقریب میں آؤں گا‘‘۔ اور یقینا ہمیشہ پُرجوش رہنے والے جیٹلی اُس کتاب کی رسم اجرائی تقریب کا حصہ تھے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو ہمارے دور سے مطابقت رکھتا ہے، ایسا دور جس میں ہماری سماج کے دیگر کئی شعبوں کی مانند سیاست اور نیوزرومس تھی شدت سے منقسم ہیں… ’ہمارے‘ اور ’اُن‘ کے درمیان، ’قوم پرستوں‘ اور ’قوم دشمنوں‘ کے درمیان، ’آزاد خیال افراد‘ اور ’نقلی آزاد خیال افراد‘ کے درمیان۔ کیا آپ موافق مودی ہو یا مخالف … اب محض سوال نہیں رہا ہے، یہ منتشر عمومی ماحول کا آئینہ ہے، جہاں ’سمواد‘ یا بات چیت کا خیال گھٹ کر پُرشور اور بے تکان چیخ پکار ہوگیا ہے جو بات چیت کے دوران بنیادی اخلاق کو ہی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں جیٹلی کی فاضل دانشمندی نمایاں طور پر ظاہر ہوئی، جو دورِ حاضر کے بی جے پی نیتاؤں کے جمگھٹ میں لگ بھگ منفرد شخصیت رہے۔ وہ کبھی مودی کی طرح عوامی لیڈر سے قریب تر بھی نہ رہے؛ ہوسکتا ہے انھوں نے سشما سوراج کی تیز و طرار خطابت کی برابری نہیں کی؛ ان پر امیت شاہ جیسا یک رخی سیاسی غلبہ تک نہ رہا کیونکہ وہ قانون، کرکٹ، کتابوں اور کئی دیگر چیزوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے کہ کبھی یک رخی شخص نہیں بنے۔ لیکن ان میں ایک خاصیت تھی جس کا ان کی نسل کے زیادہ تر دیگر میں فقدان رہا: سیاسی پہلو کو شخصی پہلو سے الگ کرتے ہوئے تنگ نظریاتی خلیجوں سے اوپر اٹھنے کی قابلیت۔ اس سے شاید ’نارائنا‘ سے لے کر ’نارتھ بلاک‘ تک اُن کے دوستوں کے بڑے حلقہ کی وضاحت ہوسکتی ہے۔ ہر سال جیٹلی کا برتھ ڈے لنچ ’پرانے‘ ہندوستان کی یاد دلاتا جہاں بائیں بازو، دائیں بازو اور اعتدال پسند نقاط نظر کے حامل اشخاص خوشی خوشی جمع ہوا کرتے تھے۔
آج کے دور میں موجود اکثر لوگوں کو ’خان مارکیٹ‘ یا ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ سے منسوب کیا جاتا ہے اور تیزی سے انھیں اصل دھارے سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جیٹلی کے اپنے نظریاتی حریفوں کے بارے میں سخت رائے نہیں ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے گزشتہ سال انھوں نے مبینہ ماؤسٹ کارکن سمجھ کر انسانی حقوق جہدکاروں کے ایک گروپ کی گرفتاری کے بعد ایک متنازعہ بلاگ لکھتے ہوئے انھیں ’نیم ماؤسٹ‘ قرار دیا تھا۔ میں نے فون کیا اور ایسے افراد پر عمومی ٹھپہ لگا دینے پر پُرزور احتجاج کیا، جن میں سے کئی کمیونٹی سرویس کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ہم نے اس مسئلہ پر نصف گھنٹہ بات کی، جس کے اختتام پر جیٹلی نے ایک حل پیش کیا: ’’اگر آپ اس مسئلہ کے تعلق سے اس قدر پُرجوش احساس رکھتے ہیں تو کیوں نہ آپ جوابی بلاگ لکھ دیتے!‘‘

اپنے حریفوں سے بغض و کینہ والا رجحان رکھے بغیر افکار و خیالات کی بحث میں شامل ہونے اور اپنا نقطہ نظر پُرزور انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت نے ہی جیٹلی کو ٹیلی ویژن مباحثوں میں بڑی مانگ والی سیاسی شخصیت بنایا، جہاں فہم و ادراک کو سنسنی پر فوقیت حاصل رہی۔ دہا 1990ء کے اواخر اور دہا 2000ء کے اوائل میں جب کبھی مجھے The Big Fight پر پیانلسٹ درکار ہوتے، میں جیٹلی، کپل سبل اور سیتارام یچوری کو پرانے طرز کی ’ٹی وی جنگ‘ کیلئے مدعو کرلیتا۔ یہ اچھا نظارہ ہوتا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان عمدہ مقررین میں سے کسی نے بھی کبھی اپنے حریفوں کو حقارت سے کہا کہ ’پاکستان چلے جاؤ‘، وہ سرزمین جس کے تعلق سے جیٹلی اکثر ہمیں یاددہانی کراتے کہ اُن کی فیملی وہیں سے آئی تھی۔ اس معاملے میں جیٹلی بی جے پی کے بردبار واجپائی۔ اڈوانی دور سے جڑے آخری کڑیوں میں سے تھے، جبکہ پارٹی میں سیاست شدید مخالف کانگریسیت کے سائے میں چلائی جاتی ہے بلکہ شاذونادر مقبول، جنونی قوم پرستی کا زہریلا عنصر شامل رہتا ہے۔ وہ شاید کافی ملامت کئے گئے لٹینس طبقے اور انتہائی آرزومند نئے متوسط طبقہ کے درمیان خلیج پاٹنے والے آخری شخص تھے جبکہ اب یہ سیاسی منظر پر زیادہ جگہ گھیرنے کوشاں ہے۔

مودی۔ شاہ طرز سے پرانے نظم کو تنگ مزاج، متصادم انداز میں ختم ہوجانے کا خطرہ درپیش رہا ہے جو سماج میں صرف گہری دراڑوں کو آشکار کرتا ہے: کشمیر اس معاملے میں تازہ ترین مثال ہے۔ جیٹلی کا طریقہ کام بردباری سے ترغیب کے ذریعے کرنا رہا نہ کہ حکم چلایا جائے، یہی وجہ ہے کہ گڈز اینڈ سرویسز ٹیکس (جی ایس ٹی) اُن کی مستقل میراث رہے گی۔ یہ بھی وجہ ہے کہ مودی 2.0 کو جیٹلی جیسی متوافق عمل شخصیت کی کمی محسوس ہوگی، ایسا شخص جس نے ظاہری انگریزی داں لوگوں کی آنکھوں میں چمک پیدا کردی حالانکہ وہ ہمیشہ اپنے مغربی دہلی کے پنجابی جڑوں کے مطابق ہی جیتے رہے۔
اختتامی تبصرہ
میں نے جیٹلی سے ان کو ہاسپٹل میں دوبارہ داخل کرانے سے محض چند روز قبل ملاقات کی تھی۔ وہ علیل نظر آرہے تھے، کھانستے رہے، لیکن کوئی نہ کوئی موضوع چھیڑنے کا اپنا رجحان نہیں کھویا تھا۔ میں بس وہاں سے روانہ ہونے ہی والا تھا کہ انھوں نے گفتگو کا موضوع سیاست سے کرکٹ کی طرف منتقل کردیا۔ ’’میں سمجھتا ہوں ویراٹ اب ہندوستان کا آل ٹائم گریٹ پلیئر ہے، مجھے امید ہے آپ کو اتفاق ہے۔‘‘ پھر مزید کچوریاں آئیں اور تازہ بحث چھڑ گئی: ڈاکٹر انھیں یہ سب کھانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سخی پنجابی میزبان کی طرح وہ مجھے پلیٹ میں زیادہ غذا چھوڑے بغیر چھوڑنے والے نہیں تھے!٭
rajdeepsardesai52@gmail.com