مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
قرآن پاک میں جہاں جہاں میاں بیوی کے حقوق کا تذکرہ ہے، وہاں فرمایا گیا کہ ’’اور تم اللہ سے ڈرتے رہنا‘‘۔ یہ اس لئے کہ ’’اور تم جان لینا کہ تمھیں اللہ سے ملاقات کرنی ہے‘‘۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں، نہ بیوی شرم سے کسی کو بتا سکتی ہے اور نہ خاوند شرم سے کسی کو بتا سکتا ہے، مگر اندر اندر دونوں ایک دوسرے کی دل آزاری کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’تم اس طرح ایک دوسرے کے دل جلایا کروگے تو یاد رکھنا کہ تم کو اللہ تعالی سے ملاقات کرنی ہے۔ اگر ایک دوسرے کو سکون نہیں پہنچاؤگے تو قیامت کے دن اس کو کیسے جواب دے سکوگے‘‘۔ ایک بہترین اصول یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی یا کوتاہی بیوی سے ہو جائے تو وہ معافی مانگ لے اور اگر خاوند سے ہو جائے تو وہ معذرت کرلے۔ اپنی غلطی پر معذرت کرلینے میں عظمت ہے۔
اس موقع پر اپنے پیر و مرشد کی ایک بات یاد آئی۔ یہ حضرات کتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اپنی زندگی کے واقعات نمونہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ ایک روز میں وضوء کر رہا تھا (عمر رسیدہ تھے) اہلیہ محترمہ وضوء کرواتے وقت پانی ٹھیک سے نہیں ڈال رہی تھیں، جس پر میں نے انھیں ذرا سختی سے بات کہہ دی کہ تم کیوں ٹھیک طرح سے وضوء نہیں کروا رہی ہو۔ مگر میرے اس طرح غصہ کرنے پر بھی وہ خاموش رہیں اور جس طرح میں چاہتا تھا اس طرح کرادیا۔ خیر میں وضوء کرکے جب گھر سے چلا تو راستے میں خیال آیا کہ ابھی تو میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ یہ برتاؤ کر رہا تھا، پھر ابھی مصلے پر جاکر نماز پڑھاؤں گا، میری نماز کیسے قبول ہوگی؟۔ کہنے لگے کہ میں آدھے راستے سے واپس آیا اور بیوی سے معذرت کی۔ جب انھوں نے مجھے معاف کردیا تو میں نے مسجد میں جاکر نماز پڑھائی۔
ازدواجی زندگی کے بارے میں ہمارا مشرقی معاشرہ آج بھی الحمد للہ! بہت پرسکون ہے۔ ہمارا یہ تجزیہ ہے کہ سو میں سے کم از کم ننانوے لڑکیاں جب اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہوتی ہیں تو ان کے دلوں میں گھر بسانے کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اعزاز صرف مشرقی لڑکیوں کو حاصل ہے کہ جب اپنے ماں باپ کے گھر سے چلتی ہیں تو دل میں یہ نیت ہوتی ہے کہ مجھے گھر بسانا ہے۔ یہ خاندان کے مستقبل کا معاملہ ہے، اگر اچھی طرح سے چلاگیا تو گھر آباد ہو جاتا ہے، ورنہ برباد ہو جاتا ہے۔ بعض مشرقی لڑکیاں تو اس قدر پاکدامن ہوتی ہیں کہ ان میں حوروں کی صفات جھلکتی ہیں۔ مثلاً اپنے خاوند کی عاشق اور غیر مردوں کی طرف مائل نہ ہونے والی۔ یہ اسلام کی برکت ہے کہ مشرق میں آج بھی بعض ایسی نیک صفت جوانیاں ہوتی ہیں، جو اپنے گھر سے قدم نکالتی ہیں تو ان کے دلوں میں کسی غیر مرد کا دخل نہیں ہوتا۔ کئی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ خاوند کا سایہ سر سے اٹھ گیا، بچوں کی خاطر اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر کوئی بیوہ عورت یہ سمجھے کہ مجھے اپنے بچوں کی پرورش کی خاطر بیٹھنا ہے اور خود اس کو پسند کرے تو اللہ تعالی اس کو جہاد کرنے کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے، اس کی بہار تو خزاں میں تبدیل ہو جاتی ہے، تاہم یہ خزاں کے موسم میں اپنے پروں کے نیچے اپنے چھوٹے چھوٹے کمسن بچوں کو چھپاکر اپنی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔
ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک بات ذہن میں رکھئے کہ جہاں محبت کمزور ہوا کرتی ہے، وہاں عیب طاقتور نظر آتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں بتنگڑ بن جاتی ہیں۔ اسی لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ ’’تم آپس میں محبت و پیار بھری زندگی گزارو۔ انسان کو بڑا حوصلہ رکھنا چاہئے، انگلش کا ایک مقولہ ہے کہ ’’ایک بڑا نظام چلانے کے لئے انسان کو دل بھی بڑا رکھنا چاہئے‘‘۔ انسان کو تحمل اور برد باری سے گھریلو معاملات سے نمٹنا چاہئے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے جھگڑتا ہے، جو اپنی زندگی خاوند کے لئے وقف کرچکی ہوتی ہے اور بیوی اپنے خاوند سے جھگڑتی ہے، جو اس کی زندگی میں ایک اعلی مقام کا حامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات دینی جہالت یا تکبر کی وجہ سے پڑھے لکھے جوڑوں میں بھی محاذ آرائی ہوتی رہتی ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے اس قدر خلاف ہو جاتے ہیں کہ خاوند ہر وقت بیوی کی غلطیاں اور عیب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے اور بیوی ہر وقت خاوند کی غلطیاں اور عیب ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے۔ بعض اوقات یہ جھگڑے کسی تیسرے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اسی لئے شریعت نے ایک بات سمجھاتے ہوئے لڑکی سے کہا کہ ’’نکاح سے پہلے تمہاری ایک ماں تھی، لیکن اب تمہاری دو مائیں اور دو باپ ہیں‘‘۔ اسی طرح لڑکے کو بتایا کہ ’’تمہاری دو مائیں اور دو باپ ہیں‘‘۔ اللہ تعالی نے خسر اور خوش دامن کو ماں باپ درجہ دیا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی کو چاہئے کہ خاوند کے گھر والوں کو خوش رکھے اور خاوند کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے گھر والوں کو خوش رکھے۔ جہاں یہ اصول دونوں میاں بیوی اپنالیں، وہاں آپ دیکھیں گے کہ کبھی لڑائی نہیں ہوگی۔ کبھی ایک غصہ میں آجائے تو دوسرے کو چاہئے کہ تحمل مزاجی سے کام لے۔ بیک وقت دونوں کا غصہ میں آنا، معاملے کو بے حد خراب کردیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ ’’اگر کوئی عورت خاوند کے غصہ پر صبر کرے تو اللہ تعالی اسے بھی صبر ایوب علیہ السلام کا درجہ عطا فرمائے گا‘‘۔
میاں بیوی دونوں کو منفی سوچ سے بچنا چاہئے۔ یعنی جو آدمی اچھا لگتا ہے اس کا ہر کام اچھا لگتا ہے اور جو آدمی برا لگتا ہے اس کا ہر کام برا لگتا ہے۔ میاں بیوی میں اگر منفی سوچ ہو تو ایک دوسرے کی ہر بات زہر معلوم ہوتی ہے۔ لہذا میاں بیوی کو چاہئے کہ اپنے اندر مثبت فکر پیدا کریں اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ یہ راستہ کدھر جا رہا ہے۔ (اقتباس)