اسرائیل پر لگام کیوں نہیں ؟

   

نفرت کا کیا گلہ کہ محبت بنی سزا
شعلوں سے بچکے نکلے تو بارش میں جل گئے
کچھ وقت کے توقف کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف ایک بار پھر سے جارحیت کا آغاز کردیا ہے ۔ ویسے تو وقفہ وقفہ سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام اور فلسطینی علاقوں میں بہیمانہ جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا جاتاہے ۔فلسطینی علاقوں میں اپنی نوآبادیات قائم کی جاتی ہیں۔ فلسطینی عوام کے خلاف غیر انسانی پابندیاں اور تحدیدات عائد کرتے ہوئے ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ۔ جب چاہے جس انداز میں چاہے فوجی طاقت کا بہیمانہ استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ساری دنیا میں انسانی حقوق کا دم بھرنے والی عالمی طاقتیں اسرائیل کے معاملہ میں خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ وہ اسرائیل کو ظالمانہ جارحیت سے روکنے کی بجائے اس کے حق دفاع کی وکالت کرتی ہیں۔ اس بات کا کوئی جواز طلب نہیں کرتا کہ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے ۔ کوئی اسرائیل کو فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے نو آبادیات کے قیام کو روکنے کی ہدایت نہیں دیتا ۔ کچھ ممالک اگر فلسطین کے حق میں بات کرتے بھی ہیں تو وہ بے آواز ہوتی ہے اور کوئی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ اب تازہ ترین صورتحال میں اسرائیل نے جینن شہر پر ظالمانہ کارروائیوں کی انتہاء کردی ہے ۔ جینن میں مختلف ٹھکانوں پر میزائیل داغے گئے ہیں۔ فوجی طیاروں سے بمباری کی گئی ہے ۔ کئی مقامات کو تباہ کردیا گیا ہے ۔ اس میں تقریبا دس فلسطینی شہید بھی ہوگئے ہیں۔ بری افواج کا بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ اس ساری کارروائی کی جو وجوہات ہیں ان کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اگر کچھ واقعات پیش بھی آئے ہوں تو بھی اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ اسرائیل پر لگام کسنے کیلئے عالمی طاقتوں کو آگے آنا چاہئے ۔ فلسطینی کاز کو کہیں پس پشت ڈال کر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والے مسلم ممالک کو بھی صورتحال کو سمجھنا چاہئے ۔ انہیں بھی یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسرائیل سے تعلقات تو انہوں نے استوار کرلئے ہیں لیکن قیمت فلسطین کے نہتے عوام ادا کر رہے ہیں۔
اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی فلسطین کے خلاف مظالم عروج پر پہونچتے ہیں کچھ عالمی طاقتیں ایک کمزور سا بیان دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب کبھی فلسطینی عوام کی جانب سے اس ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے تو اسرائیل کے حق دفاع کی وکالت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ عالمی طاقتوں کا یہ دوہرا معیار ہے ۔ ان کا ڈوغلا پن ہی ہے جس کے نتیجہ میں اسرائیل اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ فلسطینی عوام کے مصائب اور ان کی مشکلات کی کسی کو پروا ہ نہیں رہ گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ نہتے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اس کے باوجود بھی کوئی صدائے احتجاج بلند کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ یہ انتہاء درجہ کی بے حسی ہے ۔ یہ ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کا جرم ہے ۔ اسرائیل پر لگام کسنے کیلئے عالمی طاقتوں کی جتنی ذمہ داری ہے اتنی ہی علاقہ کے مسلم ممالک کی ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلم ممالک کو بھی اس معاملے میں اسرائیل پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے ۔ صرف امریکہ ‘ برطانیہ یا دوسرے بڑے ممالک پر اکتفاء کرتے ہوئے ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ عالمی طاقتوں پر انحصار کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج فلسطین سکڑتا چلا گیا ہے اور اسرائیل اپنی نو آبادیات میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے ۔ مسلم دنیا کی خاموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ ان کی شہادتیں ہو رہی ہیں اور مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
علاقہ کے مسلم ممالک کو سب سے پہلے اس معاملے میں ایک آواز ہونے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل پر اثر انداز ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مظالم کا سلسلہ ترک کرے ۔ فلسطینی عوام کی مدد کیلئے بھی ان کو آگے آنا چاہئے ۔ فلسطینی عوام کے جائز حقوق دلانے کی جدوجہد کرنی چاہئے ۔ جب مسلم ممالک ایک آواز میں اسرائیل کے خلاف بات کریں گے تب دنیا کے بڑے ممالک کو بھی جگایا جاسکے گا ۔ وہ اپنے ڈوغلے پن کو ختم کرنے پر مجبور ہونگے ۔ صرف عالمی طاقتوں پر بھروسہ یا انحصار یونہی کیا جاتا رہا تو پھر فلسطین میں مظالم کا سلسلہ چلتا رہے گا اور اس کیلئے دنیا کے سبھی مسلم ممالک اور قائدین بھی برابر کے ذمہ دار ہونگے ۔