اسرائیل ۔ حماس جنگ بندی

   

Ferty9 Clinic

اسرائیل ۔ حماس جنگ بندی
مسلسل گیارہ دن تک اسرائیل کی جارحیت اور وحشیانہ کارروائی کے بعد اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی بالآخر ہوگئی ہے ۔ تاہم یہ جنگ بندی ابھی اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ۔ مقامی سطح پر جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس میں کچھ حد تک بہتری ضرور ہوئی ہے لیکن جنگ بندی کو حتمی اور قطعی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ جنگ بندی کی اسرائیل کی جانب سے کسی بھی بہانے یا عذر کے ذریعہ خلاف ورزی نہ ہونے پائے ۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت دکھانے اور فلسطینی اتھاریٹی کے علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد کچھ وقت حاصل کرنے کیلئے جنگ بندی سے اتفاق کرلیتا ہے اور پھر کسی وقت اچانک ہی کسی نہ کسی عذر اور بہانے سے وحشیانہ کارروائیوں کا آغاز کردیتا ہے ۔ اس بار تاہم اسرائیل کو حماس کی جانب سے منہ توڑ جواب دیا گیا ہے ۔ نہتے فلسطینیوں نے جس جوانمردی اور ہمت و بہادری کے ساتھ غاصب و ظالم اسرائیل کا مقابلہ کیا ہے وہ ساری دنیا کیلئے ایک مثال ہے ۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی جھوٹی دہائی دینے والوں کو شرم آنی چاہئے کہ انہوں نے فلسطینیوں کے جائز حق کیلئے کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ ہمیشہ ہی اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس بار بھی ماہ رمضان المبارک کے دوران اسرائیل نے جس طرح اپنے ظالمانہ منصوبوں پر عمل کیا اور فلسطینیوں کے امن و چین کو درہم برہم کرکے رکھ دیا وہ انتہائی مذموم حرکت تھی تاہم کسی نے نہتے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور اسرائیل پر لگام کسنے کی کوشش نہیں کی ۔ اب مختلف گوشوں سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں جنگ بندی ہوئی ہے جبکہ جو آثار و قرائن ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگ بندی بھی حماس کی شدید مزاحمت کا نتیجہ ہے ۔ یہ درست ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے کچھ حد تک اسرائیل پر دباو بھی ڈالا گیا تھا لیکن اسرائیل اس دباو کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھا ۔ یہ تو حماس کی جانب سے کی جانے والی شدید مزاحمت اور راکٹ حملے تھے جن کی وجہ سے اسرائیل نے جنگ بندی کیلئے اتفاق کیا ہے ۔
مصر کی جانب سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کی بات چیت کو قطعیت دینے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مصر کو اس کام میں امریکہ کی بھی تائید حاصل ہے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی وحشیانہ اور ظالمانہ اسرائیلی کارروائیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے کوشش کی جائے ۔ اسرائیل کو عالمی قوانین اور عالمی اداروں کا پابند بنایا جائے ۔ خلاف ورزی پر اس کے خلاف بھی تحدیدات عائد کرنے جیسی کارروائیاں کی جائیں۔ اسرائیل کے پٹھو بن کر کام کرنے کی بجائے اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کئے جائیں۔ فلسطینی اتھاریٹی کے علاقوں کو بحال کیا جائے ۔ مغربی کنارہ ‘ غزہ سٹی اور دوسرے علاقوں میں فلسطینی اتھاریٹی کے اختیارات بحال کئے جائیں۔ یہودی نوآبادیات کو ختم کیا جائے ۔ دو ریاستی حل کی سمت پیشرفت کرتے ہوئے یروشلم کے مستقبل کے تعلق بھی قطعیت کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے ۔ جب تک اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک وہ اپنی وحشیانہ کارروائیوں سے باز نہیں آئیگا ۔ وقتی طور پر جنگ بندی کروانا اور پھر اس مسئلہ کو برفدان کی نذر کردینا کوئی دانشمندانہ عمل نہیں ہوگا ۔ اس طرح سے اسرائیل اپنے موجودہ نقصانات کی پابجائی کرتے ہوئے آئندہ کی جارحیت کی منصوبہ بندی میں جٹ جائے گا ۔ حماس کی جانب سے گیارہ دن کے دوران اسرائیل کو جو زک پہونچائی گئی ہے وہ معمولی نہیں ہوسکتی ۔ اسرائیل اس کا حساب چکنا کرنے کا منصوبہ ضرور بنائیگا۔
11 دن کی جنگ کے دوران اسرائیل کی بمباری اور فضائی حملوں میں فلسطینی اتھاریٹی کے علاقوں میں 248 فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے بموجب اسرائیل میں 13 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اپنی خفت مٹانے کیلئے اموات اور زخمیوں کی تعداد کی حقیقی تعداد کا افشاء نہ کر رہا ہو لیکن یہ درست ہے کہ زیادہ جانی و مالی نقصان فلسطین کا ہوا ہے ۔ جنگ بندی کے عمل کو مستحکم کرنے کیلئے مصر جو بات چیت کر رہا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ فلسطینیوں کی مدد پر خاص توجہ دی جائے ۔ جو نقصانات اور تباہی غزہ میں ہوئی ہے اس کو پورا کیا جائے ۔ یہاں انسانی بنیادوں پر تعمیر نو کے کام کئے جانے کی ضرورت ہے اور ان کے بغیر جنگ بندی زیادہ معنی خیز ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔ امریکہ کو بھی اس میں سرگرم رول ادا کرنے اور مستقل جنگ بندی کو یقینی بنا نے کی ضرورت ہے ۔

تیسری لہر کی تیاری
ملک میں کورونا کی دوسری لہر کی تباہی کا سلسلہ ابھی تھما بھی نہیں ہے اور لوگ اب بھی اس کی وجہ سے بے طرح مسائل کا شکار ہیں ایسے میں تیسری لہر کے اندیشے بھی ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ تیسری لہر میں کم عمر بچوں پر زیادہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال نے سارے ملک میں شدید تشویش کی لہر پیدا کردی ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے بھی کہا جا رہا ہے کہ تیسری لہر سے نمٹنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی بھی لہر میں کوئی تیاری نہیں کی گئی ۔ پہلی لہر میں بھی پروازوں کی آمد و رفت روکنے میں حد درجہ تاخیر کی گئی جس کا خمیازہ سارے ملک کو بھگتنا پڑا تھا ۔ دوسری لہر کیلئے حکومت کے پاس ایک سال کا وقت تھا ۔ پہلی لہر کا تجربہ بھی تھا اس کو بھی بروئے کار نہیں لایا گیا ۔ جیسی ہی پہلی لہر سے قدرے راحت ملی حکومت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر انتخابی مقابلوں کیلئے تیار ہوگئی اور ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کروائے گئے ۔ انتخابی عمل کے دوران کورونا قواعد کو پامال کیا گیا ۔ عوام کیلئے رہنما خطوط جاری کئے گئے لیکن خود سیاسی قائدین اور ذمہ داران نے ان قواعد پر کوئی عمل نہیں کیا اور ان کے جلسوں اور ریلیوں میں بھی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سارے ملک میں دوسری لہر نے اندیشوں سے زیادہ تباہی مچائی ہے ۔ سارے ملک میں ہر طرف موقف کا رقص چل رہا ہے ۔ عوام کے مسائل کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ اب تیسری لہر کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں تیسری لہر سے نمٹنے کی تیاری کرے ۔ صرف زبانی دعووں پر اکتفاء نہ کرے ۔ بچوں کو اس مہلک وباء سے بچانے کیلئے سائنسدانوں ‘ ماہرین اور ڈاکٹرس کے مشوروں کے ساتھ جامع حکمت عملی تیار کی جائے ۔ جو امکانی مسائل پیدا ہوسکتے ہیںان سے نمٹنے کی قبل از وقت تیاریاں کی جائیں۔