اسلاموفوبیا ‘ عرب دنیا میں برہمی

   

سوشیل میڈیا جہاں سماج میں شعور بیدار کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے وہیں کچھ فرقہ پرست اور بیمار ذہنیت کے حامل عناصر اس کے ذریعہ زہر افشانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوشیل میڈیا کے مثبت اور بہتر استعمال کی بجائے منفی سوچ کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے اس کا استعمال بہت زیادہ ہونے لگا ہے ۔ باضابطہ تنخواہوں کی ادائیگی کے ذریعہ نفرت پھیلانے کیلئے بے شمار بیمار ذہنوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے سماج میں نفرت کا زہر گھولا جاتا ہے ۔ ایسے ہی عناصر کی جانب سے موقع اور بے موقع اسلام کے خلاف زہرافشانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ چاہے سی اے اے اور این آر سی کا مسئلہ رہا ہو یا پھر تین طلاق کا مسئلہ رہا ہو۔ چاہے کوئی اور مسئلہ کیوں نہ رہا ہو۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کورونا وائرس جیسی وباء کے مسئلہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ اسلام کے تعلق سے جو زہر افشانی کی جا رہی تھی اسے ساری دنیا میں محسوس تو کیا جا رہا تھا لیکن کسی نے بھی اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ تاہم اب اچانک ہی عرب دنیا میں اس تعلق سے ایک طرح کی برہمی پیدا ہونے لگی ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ عرب خواتین کے تعلق سے انتہائی نازیبا اور ناشائستہ ریمارکس کئے گئے تھے اور ٹوئیٹس سامنے آئے تھے ۔ ایسے میں عرب دنیا میں برہمی کی لہر پیدا ہونا ایک طرح کا فطری عمل ہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے اپنا ملک اور یہاں کا قانون سب سے اولین ترجیح ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ تاہم جو عناصر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں انہیں اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ عرب دنیا کے ہندوستان کے ساتھ بہترین تعلقات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ صدیوں پرانے یہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہماری حکومتیں بھی ان تعلقات کی اہمیت کو سمجھتی ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کی معیشت میں عرب دنیا کا ایک اہم رول رہا ہے ۔ کروڑوں ہندوستانی باشندے ‘ بلا لحاظ مذہب و ملت ‘ عرب ممالک میں برسرکار بھی ہیں۔ مزید لاکھوں افراد ان ممالک میں تلاش معاش کیلئے جانا بھی چاہتے ہیں۔

جو ہندوستانی باشندے عرب ممالک میں برسر روزگار ہیں وہ ہندوستان کو خاطر خواہ بیرونی زر مبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ملک کی معیشت کے استحکام میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب ممالک سے ہندوستان تیل کا ایک بڑا حصہ حاصل کرتا ہے ۔ تمام عرب ممالک بھی ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ عرب ممالک خالصتا اسلامی ممالک کہلاتے ہیں جبکہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور یہاں عوامی جمہوریت رائج ہے ۔ اسلامی شاہی حکومتیں ہونے کے باوجود عرب دنیا میں کبھی کسی طرح کے بھید بھاو کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ بے شمار مواقع پر عرب دنیا نے ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت کو اپنے اقدامات سے اجاگر کیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی جب عرب ممالک کے دوروں پر گئے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور انہیں وہاں اعزازات سے بھی سرفراز کیا گیا ۔ حکومت ہند بھی ان عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتی ہے ۔ حکومتی سطح پر تعلقات میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے ۔ تاہم جو عناصر اسلام دشمنی میں حد سے گذر رہے ہیں ان کی بیمار ذہنیت ملک کے مفادات کو نقصان پہونچانے کا موجب ہوسکتی ہے ۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہندوستانیوں کا روزگار عرب ممالک میں متاثر ہوسکتا ہے جس سے ہمارے ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

جو عناصر اسلامو فوبیا کا شکار ہیں انہیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ ملک کے وزیر اعظم نے خود ٹوئیٹ کیا کہ کورونا وائرس کسی کا مذہب یا ذات پات نہیں دیکھتا ۔ اس کے علاوہ خواتین کی عزت و احترام جو ہندوستان میں ہے وہ ساری دنیا کیلئے ایک مثال ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی ہندوستانی عرب خواتین کے تعلق سے نازیبا اور ناشائستہ ریمارکس کرتا ہے تو یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستانی روایات کی علامت نہیں ہوسکتی ۔ خود عرب ممالک میں یہ احساس ہے کہ جو لوگ اس طرح کی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ حقیقی ہندوستان کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ ان عناصر کو اپنی بیمار ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے اور دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت کو متاثر کرنے والی حرکتوں سے فوری باز آجانا چاہئے ۔