اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد: پروفیسر اخترالواسع

,

   

زائد از چودہ سو سال پہلے کی بات ہے کہ۰۱ / محرم الحرام ۱۶ھ کو ایک ایسے چٹیل میدان میں جہاں نہ کوئی سایہ تھااور نہ پانی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ، شیرِ خدا حضرت علیؓ کے قرۃ العین اور سیدہ فاطمہ زہراؓ کی آنکھوں کے نور اور دل کے سرور حضرت امام حسین ؓ کو یزیدی لشکر نے ابن سعد کی ہدایت اور شمّر کی سرکردگی میں نہ صرف شہید کیا بلکہ ان کے سر کو تن سے جدا کر کے لے گئے۔ اس معرکہئ حق و باطل میں یزیدی لشکر کی تعداد چار ہزار مسلّح سپاہیوں پر مشتمل تھی اور نواسہئ رسولؐ کے ہمراہی ہم عددِ یزداں یعنی کل ۲۷/ آدمی جن میں صرف بیمار زین العابدینؓ زندہ بچے رہے۔ تاریخ اسلام میں یہی حادثہ معرکہئ کربلا کے نام سے مشہور ہے اور اس عظیم تاریخی سانحہ پر مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دنیا کی تاریخِ دعوت و عزیمت میں یہ واقعہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں مٹھی بھر افراد نے ’حق‘ پر قائم رہنے کے لئے ’باطل‘ سے ہر ممکنہ ٹکّر لی اور اپنے جذبہئ صادق، پُرعزم استقامت، زبردست استقلال اور میدانِ کربلا میں دادِ شجاعت دے کر حق اور باطل کے فرق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس طرح واضح اور صاف کر دیا کہ اب کبھی بھی کوئی باطل پسند قوت، حق کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو فریب دینے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اقبال نے شاید اسی لئے کہا تھا:
موسی و فرعون و شبّیر و یزید
ایں دو قوّت از حیات آمد پدید
شہیدِکربلا سیدنا امام حسینؓ نے آزمائش کے اس مرحلے میں جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ حق اور حرّیت کی راہ میں ہر قربانی ضروری ہے اور یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے پاس وہ تمام مادّی قوت و شوکت موجود ہے کہ نہیں جس کے تمام سازو سامان سے ظالم آراستہ و پیراستہ ہے۔ یہ بھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری تعداد ظالم اور حق کی دشمن طاقت کے مقابلے کم اور بہت کم ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ حق اور حرّیت کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو کر ہر میدان کرب و بلا میں آزمائش کے لئے تیار ہو جائیں اور نتائج کا معاملہ اللہ کے ہاتھوں میں چھوڑدیں، کیوں کہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ مصلحت اور خوف سے پرہیز نہیں کریں۔
حضرت امام حسینؓ کی اتباع اس میں ہے کہ نہ صرف اولاد اور متعلقین کی محبت کو راہِ حق پر گامزن ہونے میں حائل نہ ہونے دیں بلکہ اسوہئ براہیمی کی پیروی میں امام عالی مقام کی طرح اپنے جگر گوشوں کو، جان و دل سے زیادہ عزیزوں کو، گھر کے روشن چراغوں کو، حق و حرّیت، آزادی و صداقت اور معروف و منکر کے لئے ظالم و جابر شخصی نظام حکومت کے دعویداروں کے مقابلے میں لے کر نکل کھڑے ہوں۔ ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھیں اور خود بھی قربان ہو جائیں اور اس منشائے الٰہی کے مثیل بن جائیں جس کو قرآن کریم کی سورہئ بقرہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
’اللہ تمہیں آزمائشوں میں ڈالے گا، وہ حالت خوف و ہراس، بھوک اور پیاس، نقصان مال و جان اور ہلاکت اولاد و اقارب میں مبتلا کر کے تمہارے صبر و استقامت کو آزمائے گا۔ استقامت کا یہ حال ہے کہ جب مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے تمام معاملات کو یہ کہہ کر اللہ کے سپرد کردیتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں او رہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘
سیدنا امام حسینؓ کربلا میں کس لئے شہید ہوئے؟ کیا اس لئے کہ وہ حکومت کے خواہاں تھے؟ نہیں! تو کیا پھر اس لیے کہ وہ دولت و شوکت کے طلبگار تھے؟ نہیں! ہر گز نہیں!! پھر کیا بات تھی جس کی خاطر وہ ۲۷/ آدمیوں پر مشتمل جماعت کو لے کر اس شخصی حکومت کے جبریہ نظام کے سامنے سینہ سپر ہوگئے جس کی حکومت کی سرحدیں یوروپ سے ہندستان اور شمالی افریقہ سے وسط ایشیا کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بات صرف حکومت کی خواہش یا دولت و شوکت کی طلب گاری کی نہ تھی۔ کیوں کہ وہ شہِ دوسرا اور تاجدارِ اممؐ کے محبوب نواسے ہونے کی وجہ سے ساری امت کے بے تاج بادشاہ تھے او ران کی حکومت دلوں پر تھی۔ دولت و شوکت ان کے گھر کی باندی تھی۔ وہ اپنے نانا کے دیار، اپنے اجداد کے شہر کو چھوڑ کر اس لئے میدانِ کربلا میں ڈٹ گئے کیوں کہ وہ ایک شخصی حکومت کے نظام جبر کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے، وہ باطل پر سے حق کی جھوٹی نقاب کو اتار دینا چاہتے تھے۔ انہو ں نے کربلا پہنچنے سے پہلے مقام بیضہ پر اپنے ایک خطبہ میں اپنے مقاصد و مطالب کو بڑے پُراثر انداز میں واضح کر دیا تھا۔ آپ نے فرمایا:
’لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس ظالم نے اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرنے والے، خدا کے عہد کو توڑنے والے، خدا اور رسول کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے۔‘
’لوگو! خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی او ررحمان کی اطاعت چھوڑ دی، ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدودِ الٰہی کو معطل کردیاہے۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔‘
اس کے برخلاف یزیدی قوتیں چاہتی تھیں کہ امام حسین اپنے موقف کو تبدیل کر کے یزید کی پلید ملوکیت کی تائید کریں۔ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی اطاعت کا یقین دلائیں لیکن حضرت امام حسین نے کربلا میں افسانہئ حق و حرّیت کو اپنے خون سے سرخی عطا کی۔ اپنا سر تو دے دیا لیکن ظالم و جابر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیا۔ اسی لئے تو معین الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے کہا تھا:
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین

دیں است حسین، دیں پناہ است حسین
سرداد، نہ داد، دست در دستِ یزید

حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین
شہیدِ کربلا حسینؓ نے اپنی قربانی سے اپنے مقصد کو پا لیا اور اور یزیدی لشکر کی ہر کوشش اور ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔ یزید کا مقصد بیعت لینا یعنی اپنی اطاعت کا حسین سے اقرار کرانا تھا اور امام حسین کا مقصد بیعت نہ کرنا تھا۔ امام ؓ کامیاب ہوئے او ریزید ناکام ہوگیا۔ اسی حقیقت کو شری دواکر راہی نے یوں بیان کیا ہے:
وقار خونِ شہیداں کی قسم یزید مورچہ جیتا ہے، جنگ ہارا ہے
امام حسینؓ جامِ شہادت نوش کر کے ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہوگئے کیوں کہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد:
’دنیا میں ہر چیز مر جاتی ہے کہ فانی ہے۔ مگر خون شہادت کے ان قطروں کے لئے جو اپنے اندر حیات الہٰیہ کی روح رکھتے ہیں کبھی فنا نہیں۔‘
علامہ اقبال نے اس بات کی گواہی اس طرح دی کہ:
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں اندازکوفی و شامی
محرم کا یہ عشرہ ہمیں تازگی زخم کہن کے لئے ایسے ہی ماتم آلود دنوں سے متعارف کراتا ہے جو صدیوں پہلے کی اس داستان کربلا کو جس میں امام حسینؓ نے اپنی اولادوں، عزیزوں اور رفیقوں کے ساتھ مسیحائی، آزادی او رخیر کی برتری و بحالی کے لئے شہادت دی تھی……………… اپنی زبان سے، خون آلود اور زخم خوردہ جسم سے اور ظالموں کے ہاتھوں قلم کئے گئے سر سے۔ مولانا آزاد کی زبان میں:
’فی الحقیقت یہ حق و صداقت، آزادی و حرّیت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک عظیم الشان قربانی تھی جو صرف اس لئے ہوئی تاکہ پیروان اسلام کے لئے ایک اسوہئ حسنہ پیش کرے اور اس طرح جہاد حق و عدالت او راس کے ثبات و استقامت کی ہمیشہ کے لئے ایک مکمل ترین مثال قائم کردے۔‘
(مضون نگار مولاناآزاد یونیورسٹی، جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)