اعلی تعلیم کا گِرتا معیارکون ذمہ دار؟

   

دہروباش کرن ماتھر
وظیفہ یاب پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی ، سابق پرنسپل نظام کالج

ہندوستان کی آزادی سے قبل ملک میں اعلی تعلیم کے ذرائع محدود تھے۔ بعدازاں جامعات میں کافی اضافہ ہوا اور اعلی تعلیم کے مراکز ملک کے کونے کونے میں پھیلنا شروع ہوگئے ۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا انکشاف بھی ہونے لگا کہ اعلی تعلیم کے معیار میں بتدریج گراوٹ ہونے لگی ہے ۔ جب اس گراؤٹ میں حد سے زیادہ اضافہ ہونے کا احساس نامور ماہر تعلیم و متعلقہ وزارت کو ہوا تو تشویش پیداہوئی اور اس مسئلہ کے حل کی جستجو ہونے لگی ۔ حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں کے درمیان بتوسط یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (U.G.C) کافی عرصہ تک اس سلسلے میں بحث مباحثے ہوتے رہے ۔بالاخر یہ فیصلہ ہوا کے چنندہ شہرت یافتہ معیاری کالجس کو اس گراوٹ سے بعید رکھا جائے ۔ تجربہ کے طور پر ایسے کالجس کو جزوی خود مختاری دی جائے اور پھر ان کی عمدہ کارکردگی کے پیش نظر Deemed جامعہ کا درجہ دیا جاسکے گا ۔ اس طرح خود مختار کالجس (Autonomous) اور Deemed جامعات کا انتخاب عمل میں آیا ۔ شروعات میں صرف 19 کالجس کا انتخاب ہوا جس میں مزید اضافے کے باوجود 115 کالجس کا 1986 تک قیام ہوا ۔ حالانکہ حکومت ساتویں پنچ سالانہ منصوبے کے تحت 500 خود مختار کالجس کی منظوری دی تھی ۔ کچھ عرصہ بعد ان کالجس میں بے تحاشہ اضافہ ہونے لگا ۔ حکومت نے جب اپنے تجربہ کا جائزہ لینا شروع کیا تو اس کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی داخل کردہ رپورٹ کافی مایوس کُن تھیں ۔ کچھ خود مختار کالجس اور ڈیمنڈ جامعات اُس درجہ کے قابل نہیں پائے گئے جیسے انہیں عطا کیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں کارکردگی کی کوتاہی کی کئی وجوہات کے علاوہ قابل اور تجربہ کار اساتذہ کی کمی کا ذکر بطور خاص تھا ۔
تدریس ایک ایسا پیشہ ہے جہا مدرس میں علمی قابلیت ، تدریسی صلاحیت و تجربہ کے علاوہ مدرسی میں بے لوث خدمت کا جذبہ ہونا کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اگر کسی مدرس کا غلط انتخاب ان خوبیوں سے ہٹ کر ہو تو وہ اپنے طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ کا سبب بن سکتے ہیں جب کے طلباء قابل اساتذہ کی زیرسرپرستی میں مناسب تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہوں ۔ اساتذہ کے انتخاب میں کافی احتیاط برتنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے اشخاص کا بطور مدرسین انتخاب ہو جو نہ صرف اپنے مضامین میں ماہر ہوں بلکہ مشکل اسباق خصوصاً سائنس ٹکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کو بھی سلیس زبان میں طلباء کو سمجھا سکیں نہ کہ اپنی قابلیت کے اظہار کیلئے لچھے دار جملوں کے استعمال سے ۔ مدرسی کے امیدوار سے چند منٹ کے انٹرویو میں سوال و جواب پر اکتفا کر کے انتخاب کرنا نامناسب معلوم ہوتا ہے ۔ درخواست گزار کو اس کی اہمیت ثابت کرنے کا موقع دیکر چند انتخابی مرحلوں سے گزار کر تشفی کرلینا صحیح انتخاب میں مددگار ثابت ہوگا ۔ حالانکہ دور حاضر میں تحفظات (Reservations) کی بڑی اہمیت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ خود وائس چانسلر کے تقرر میں بھی اس کا استعمال لازمی مانا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے ریاست تلنگانہ میں ہوئے وائس چانسلرس کے تقررات اس کی موزوں مثال ہے ۔
اعلی تعلیمی اداروں میں تقرر کے بعد مدرس کو کھوج (Research) ریسرچ کرنے کی مکمل آزادی دینا اور سہولتیں بشمول درکار وقت مہیا کرنا تعلیمی ادارے / جامعہ کی ذمہ داری ہونی چاہئے ۔ اس سے مدرس کو اپنی تعلیمی قابلیت میں نہ صرف اضافہ کرنے کے مواقع ملیں گے بلکہ اپنی حاصل کردہ مزید علمیت (Knowledge) کو طلباء میں تقسیم کا ذریعہ اور اپنے کالج / جامعہ کو معنی خیز جدید تحقیقات کا بہترین مرکز بنانے میں ظاہر ہے اس طرح جامعہ کا نام روشن ہوگا اور اس مدرس کے تحت کام کرنے والے ریسرچ اسکالرس کی ہمت افزائی ۔ انہیں ریسرچ میں فوقیت اور تحقیقات کے جدید طور طریقوں سے واقفیت و استفادہ حاصل ہوگا ۔
علاوہ ازیں یہاں اس بات کا ذکر اہمیت کا حامل ہے کہ اعلی تعلیم کے اداروں ، بشمول ہاسٹل میں صحت مندانہ فضاء کا ہونا اشد ضروری ہے ۔ طلباء کو ہڑتال ، دھرنا ، جائز یا ناجائز مطالبات کیلئے پرتشدد مظاہرے کرنا سیاسی انتخابات میں سیاست دانوں کی طرف داری یا مدد کرنا ریاگنگ (Ragging) وغیرہ سے گریز کرنا چاہئے ۔ ان سب کا بُرا اثر طلباء کے حصول تعلیم پر پڑے گا جو تعلیمی معیار میں گراوٹ کا بڑا سبب بن سکتا ہے ۔ طلباء کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اعلی تعلیم کا حصول مالی اعتبار سے کافی مہنگا ہوتا ہے جس کا اثر حکومت کے خزانے پر پڑے گا جو خود عوام کا دیا ہوا ہے ۔
مندرجہ بالا مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اساتذہ کو ہی اعلی تعلیم کے گرتے معیار کا ذمہ دار ٹھہرانا حقیقت سے بعید ہوگا ۔ اعلی تعلیم کے معیار کو بُلند رکھنے کیلئے نہ صرف قابل تجربہ کار اساتذہ کا صحیح انتخاب بلکہ تدریس کیلئے درکار تمام ضروریات کی موجودگی بشمول ریسرچ کی سہولتیں اداروں میں صحتمندانہ فضاء کا ہونا اور متعلقہ اسٹاف کا متحد ہونا قابل ذکر ہیں۔